Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کی علامات چھپانے کی وجوہات اور نقصانات

طبی ماہرین کے مطابق مرض چھپانے کی ایک وجہ معاشرتی تنہائی کا خوف ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی یونین کونسل منگا کا ایک رہائشی عمرے کی ادائیگی کے بعد سعودی عرب سے لوٹا توا س میں کورونا کی تمام علامات موجود تھیں۔
متاثرہ شخص نے گاؤں کے لوگوں کی دعوت کی اور ملاقاتیں بھی کرتا رہا۔
صحت کی حالت شدید خراب ہونے پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن مریض نے وہاں رکنے سے انکار کر دیا۔ کورونا ٹیسٹ رپورٹ بھی مثبت آئی اور متاثرہ شخص 18 مارچ کو چل بسا۔
کورونا کے باعث یہ پاکستان میں ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔
خیبرپختونخوا کے وزیر صحت نے بدھ کو بتایا ہے کہ مردان کی اس یونین کونسل کے 46 میں سے 39 افراد کے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔
تفتان سے کئی  زائرین کے فرار ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں پہنچنے کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔
کوئٹہ سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کے مطابق بلوچستان کے ضلع ژوب کا رہائشی جو اسلام آباد میں زیر تعلیم تھا، طبیعت خرابی کے باعث اپنے آبائی گھر آیا اور ایک تقریب میں شرکت بھی کی۔

تفتان سے کئی  زائرین کے فرار ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں پہنچنے کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

 مذکورہ شخص کو کسی طریقے سے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے وہ اپنے خاندان کے افراد کی مدد سے بھاگ نکلا، بعد میں اسے لیویز اہلکاروں نے کوئٹہ منتقل کیا اور اب وہ قرنطینہ میں ہے۔
معروف ڈیزائنر ماریہ بی کے شوہر کی جانب سے کورونا کے مریض کو گھر پر رکھنے اور پھر بس میں گاؤں روانہ کرنے کا مبینہ واقعہ بھی سامنے آیا۔
اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریض اپنا مرض کیوں چھپاتے ہیں اور کسی مریض کی جانب سے بالخصوص کورونا کی علامات چھپانا کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے؟
وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فضل ربی کہتے ہیں کہ 'کسی مریض کی جانب سے مرض چھپانے کی دو وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ابھی تک پتہ ہی نہیں ہے کہ مریض اپنی علامات چھپا کر معاشرے کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ان پڑھ لوگوں کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کو علم نہیں لیکن اب تو پڑھے لکھے لوگ اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔ سچ ہے کہ ہمارا مقابلہ ایک طرف کورونا سے ہے تو دوسری طرف جہالت سے ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'مرض چھپانے کی دوسری وجہ معاشرتی تنہائی ہے۔ جوں جوں لوگوں کو آئسولیشن اور قرنطینہ کے بارے میں پتہ چل رہا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے کٹ کر اکیلے رہنا پڑے گا۔ لوگ ان کو نظر انداز کریں گے اور شاید نفرت بھی کریں۔ اس وجہ سے لوگ ٹیسٹ کرانے اور مرض بارے بتانے سے گریز کر رہے  ہیں۔'

ڈاکٹر فضل ربی کہتے ہیں کہ لوگوں کو ابھی تک پتہ ہی نہیں ہے کہ مریض اپنی علامات چھپا کر معاشرے کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن رہا ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)

پبلک ہیلتھ کی ماہر ڈاکٹر کرن خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ کورونا کے کسی مریض کو اپنی علامات چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کورونا رپورٹ مثبت آنے کے باوجود بھی آپ کا ہسپتال یا آئسولیشن وارڈ میں داخلہ ضروری نہیں۔
آپ اپنے گھر پر اپنی قوت مدافعت کے بل پر ہی تندرست ہو سکتے ہیں۔ البتہ اگر کسی مریض کو سانس لینے میں زیادہ دشواری ہو تو اسے میڈیکل کئیر کی ضرورت ہوتی ہے۔'
ڈاکٹرز تجویز کرتے ہیں کہ اگر مریض یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی تو ابتدائی سٹیج پر بہتر ہے کہ وہ گھر پر رہیں بصورت دیگر صاحب حیثیت افراد نجی ہسپتالوں کے آئسولیشن وارڈز میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کورونا کی وبا جوں جوں دنیا بھر میں پھیل رہی ہے اس کے پھیلاو کے طریقہ کار میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اگر پاکستان کو ہی دیکھا جائے تو ابتدائی طور پر ایسے مریض سامنے آئے جن کی کوئی ٹریول ہسٹری موجود تھی یعنی انھوں نے کسی ایسے ملک کا سفر کیا تھا جہاں یہ وبا موجود تھی۔
وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق 'ایسے افراد کی ایئرپورٹ پر تھرمل سکریننگ کی جاتی ہے۔ بخار یا دیگر علامات ہونے کی صورت میں آئسولیشن وارڈ منتقل کرکے ٹیسٹ لیے جاتے تھے۔ ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں داخل کر لیا جاتا تھا اور ٹیسٹ منفی آنے کی صورت میں چودہ دن کے بعد گھر بھیج دیا جاتا تھا۔'
انھوں نے کہا کہ 'زائرین چونکہ براہ راست ایسے علاقے سے آئے تھے جہاں یہ وبا پوری طرح پھیل چکی تھی اس لیے انھیں قرنطینہ مراکز میں رکھنے اور ان کے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔'

ڈاکٹر کرن خان کہتی ہیں کہ کورونا رپورٹ مثبت آنے کے باوجود بھی آپ کا ہسپتال میں داخلہ ضروری نہیں بلکہ گھر پر علیحدہ رہیں(فوٹو:سوشل میڈیا)

پاکستان میں مریضوں کی دوسری قسم ان افراد کی ہے جنھوں نے کورونا کے کسی مریض سے میل جول رکھا یا ملاقات کی۔ ترجمان کے مطابق ابتدا میں جن لوگوں میں علامات واضح ہوئیں انھیں ٹیسٹ کرانے کا پابند کیا گیا لیکن اب ہدایات دی جا رہی ہیں کہ علامات نہ بھی سامنے آئیں تب بھی ٹیسٹ کرانا چاہیے اور سیلف آئسولیشن میں جانا چاہیے۔'
ایسے افراد جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کورونا کے مریض سے ملے ہیں، ترجمان کا کہنا تھا کہ 'اسی وجہ سے تو ملک بھر میں لاک ڈاون کرکے لوگوں کو گھروں میں بند کیا گیا ہے تاکہ علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے پوری قوم کے ایک ایک فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔'
پاکستان میں اب ایسے مریض بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جو درج بالا کسی کیٹگری میں شمار نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فضل ربی کہتے ہیں کہ 'کسی بھی مرض کی دو تعریفیں ہوتی ہیں۔ پہلی مستقل تعریف ہوتی ہے جبکہ دوسری وبائی تعریف ہوتی ہے۔ وبائی تعریف کے تین سٹیج ہوتے ہیں پہلا مشتبہ، دوسرا ممکنہ جبکہ تیسرا یقینی ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'مشتبہ کا تعلق وبائی مرض کے ابتدائی علاقے سے ہوتا ہے جیسے کورونا کی بیماری وہان سے شروع ہوئی تو وہاں سے آنے والے ہر فرد کو مشتبہ سمجھا گیا۔ پھر ایران سے آنے والے بھی مشتبہ کہلائے۔

پاکستان میں مریضوں کی دوسری قسم ان افراد کی ہے جنھوں نے کورونا کے کسی مریض سے میل جول رکھا یا ملاقات کی (فوٹو:اے ایف پی)

اب جب یہ بیماری دنیا بھر میں پھیل چکی ہے تو باہمی روابط والے ممکنہ مریض ہوسکتے ہیں جبکہ ٹیسٹ کے نتیجے میں مثبت رپورٹ والے کنفرم مریض ہیں۔ اس وقت دنیا میں کورونا کی وبائی تعریف لاگو ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔'
ایسی صورت میں میں جب آپ کو معلوم نہ ہو کہ آپ کسی ایسے مریض سے ملے ہیں جس کو پہلے سے کورونا وائرس کا مرض لاحق ہے تو سی ڈی سی کے کورونا چیکر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
https://c19check.com/
اوپر دیے گئے لنک پر کلک کریں اور بنیادی معلومات کے بعد علامات پر ٹک کرتے جائیں آخر میں آپ کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات کی روشنی میں طبی ہدایات سامنے آ جائیں گے۔
اگر سی ڈی سی چیکر ٹیسٹ تجویز کرے تو حکومت کی طرف سے قائم کردہ سینٹرز یا نجی لیبارٹری سے رابطہ کرکے ٹیسٹ کروایا جا سکتا ہے۔

شیئر: