کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتیں، انتظامیہ اور متعلقہ ادارے اب تک سوشل ڈسٹنسنگ پر زور دیتے اور علاج کے نہ ہونے یا تشخیص کے لیے ضروری آلات کی عدم فراہمی کا شکوہ کرتے دکھائی دے رہے تھے تاہم اس بار معاملہ کچھ مختلف دکھائی دیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی اطلاع دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ انتظامی سطح پر کیے گئے اقدامات سے صورت حال بہتر ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں گمنام ہیروزNode ID: 467606
-
کورونا وائرس سے دنیا بھر میں 26 ہزار سے زائد ہلاکتیںNode ID: 467731
-
سویڈش سفیر کا پش اپ چیلنج: ’کل یا پرسوں سے پریکٹس شروع‘Node ID: 467736
اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سرویلنس ٹیمیں کام کر رہی ہیں، شہزاد ٹاؤن، چک شہزاد اور ایچ الیون کی کچی آبادی میں بھی مرض پر قابو پا لیا ہے۔ بھارہ کہو میں تھوڑا سا چیلنج ہے لیکن وہاں بھی مریض بڑھ نہیں رہے ہیں۔
حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ یہ تو وہ اقدامات ہیں جو ہم نے کیے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ 10 دن تک آپ نے ہمارے ساتھ پوری طرح تعاون کرنا ہے۔ اشیائے ضروریہ موجود ہیں، اشیا آ بھی رہی ہیں۔ دس روز تک پینک بائنگ نہ کریں، رش والے مقامات پر بھی نہ جائیں۔
اسلام آباد کے لوگوں کے لئے کرونا کے بارے میں ضلع انتظامیہ کی جانب سے ایک پیغام pic.twitter.com/6WARPaeqxk
— Deputy Commissioner Islamabad (@dcislamabad) March 27, 2020
انہوں نے کہا کہ اگر 10 روز تک یہ احتیاط کر لی گئی تو توقع ہے کہ اس عرصے میں ہمارے پاس دوائیں اور دیگر ضرورت کی چیزیں پہنچ چکی ہوں گی، ہمارا صحت کا نظام بھی اتنا توانا ہو چکا ہوگا کہ ہم اس صورت حال پر قابو پا سکیں گے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے پیغام کے بعد صارفین کی جانب سے اس پر حوصلہ افزا ردعمل دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے بیوروکریسی سے متعلق اپنے سابقہ خیالات میں تبدیلی کا اقرار کیا۔
نعیم اظہر نامی صارف نے ڈپٹی کمشنر کی ویڈیو میں بیان کردہ صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ’کوئی شک نہیں ہے، میں ان کے بیان کردہ انتظامات کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔
انتظامی کاوشوں اور ان کے نتائج سے متعلق گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ صارف ایسے بھی تھے جنہوں نے مختلف مقامات پر مسائل کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے ازالے کا مطالبہ کیا۔
ڈپٹی کمشنر کے ویڈیو پیغام پر تبصرہ کرنے والے سوشل میڈیا یوزرز میں سے کچھ نے صورت حال مزید بہتر کرنے کے لیے تجاویز بھی دیں۔ عبداللہ قریشی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ’جی الیون مرکز میں مختلف بینکوں کی اے ٹی ایمز پر سینیٹائزرز نہیں تھے۔ اے ٹیم ایمز میں سینیٹائزرز موجود ہونے چاہیئں کیوں کہ روزانہ بہت سے لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں۔‘
شہلا فاروقی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’وہ تعمیراتی کمپنی کی ڈائریکٹر ہیں۔ ڈپٹی کشمنر کے ایک خط میں تعمیراتی جگہوں کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن مزدور عموماً گروپس کی شکل میں خیموں سے بنی رہائش میں رہتے ہی جہاں وہ وائرس کی وبا کا شانہ ہو سکتے ہیں۔ ازراہ کرم شق نمبر تین ای کو تبدیل کریں تاکہ وہ بھی گھروں کو جا سکیں۔
پاکستان میں ہفتہ 28 مارچ کی صبح تک کورونا وائرس کے معلوم مریضوں کی تعداد 1350 سے زائد ہو چکی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں کورونا کے سب سے زیادہ باالترتیب 490 اور 440 مریض سامنے آئے ہیں۔ ملک میں کورونا سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی دس سے تجاوز کر چکی ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں