Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اسلام آباد میں کورونا کا پھیلاؤ روک لیا‘

ڈپٹی کمشنر کے مطابق کورونا کے زیادہ کیسز ٹریول ہسٹری والے ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتیں، انتظامیہ اور متعلقہ ادارے اب تک سوشل ڈسٹنسنگ پر زور دیتے اور علاج کے نہ ہونے یا تشخیص کے لیے ضروری آلات کی عدم فراہمی کا شکوہ کرتے دکھائی دے رہے تھے تاہم اس بار معاملہ کچھ مختلف دکھائی دیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی اطلاع دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ انتظامی سطح پر کیے گئے اقدامات سے صورت حال بہتر ہوئی ہے۔
اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سرویلنس ٹیمیں کام کر رہی ہیں، شہزاد ٹاؤن، چک شہزاد اور ایچ الیون کی کچی آبادی میں بھی مرض پر قابو پا لیا ہے۔ بھارہ کہو میں تھوڑا سا چیلنج ہے لیکن وہاں بھی مریض بڑھ نہیں رہے ہیں۔
حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ یہ تو وہ اقدامات ہیں جو ہم نے کیے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ 10 دن تک آپ نے ہمارے ساتھ پوری طرح تعاون کرنا ہے۔ اشیائے ضروریہ موجود ہیں، اشیا آ بھی رہی ہیں۔ دس روز تک پینک بائنگ نہ کریں، رش والے مقامات پر بھی نہ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر 10 روز تک یہ احتیاط کر لی گئی تو توقع ہے کہ اس عرصے میں ہمارے پاس دوائیں اور دیگر ضرورت کی چیزیں پہنچ چکی ہوں گی، ہمارا صحت کا نظام بھی اتنا توانا ہو چکا ہوگا کہ ہم اس صورت حال پر قابو پا سکیں گے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے پیغام کے بعد صارفین کی جانب سے اس پر حوصلہ افزا ردعمل دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے بیوروکریسی سے متعلق اپنے سابقہ خیالات میں تبدیلی کا اقرار کیا۔

نعیم اظہر نامی صارف نے ڈپٹی کمشنر کی ویڈیو میں بیان کردہ صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ’کوئی شک نہیں ہے، میں ان کے بیان کردہ انتظامات کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔

انتظامی کاوشوں اور ان کے نتائج سے متعلق گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ صارف ایسے بھی تھے جنہوں نے مختلف مقامات پر مسائل کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے ازالے کا مطالبہ کیا۔

ڈپٹی کمشنر کے ویڈیو پیغام پر تبصرہ کرنے والے سوشل میڈیا یوزرز میں سے کچھ نے صورت حال مزید بہتر کرنے کے لیے تجاویز بھی دیں۔ عبداللہ قریشی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ’جی الیون مرکز میں مختلف بینکوں کی اے ٹی ایمز پر سینیٹائزرز نہیں تھے۔ اے ٹیم ایمز میں سینیٹائزرز موجود ہونے چاہیئں کیوں کہ روزانہ بہت سے لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں۔

شہلا فاروقی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’وہ تعمیراتی کمپنی کی ڈائریکٹر ہیں۔ ڈپٹی کشمنر کے ایک خط میں تعمیراتی جگہوں کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن مزدور عموماً گروپس کی شکل میں خیموں سے بنی رہائش میں رہتے ہی جہاں وہ وائرس کی وبا کا شانہ ہو سکتے ہیں۔ ازراہ کرم شق نمبر تین ای کو تبدیل کریں تاکہ وہ بھی گھروں کو جا سکیں۔

پاکستان میں ہفتہ 28 مارچ کی صبح تک کورونا وائرس کے معلوم مریضوں کی تعداد 1350 سے زائد ہو چکی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں کورونا کے سب سے زیادہ باالترتیب 490 اور 440 مریض سامنے آئے ہیں۔ ملک میں کورونا سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی دس سے تجاوز کر چکی ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: