پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریض ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر فہمینہ اشفاق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع جناح ہسپتال میں سینیئر رجسٹرار ہیں اور اسی ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لیے بنائے گئے وارڈ میں ڈیوٹی بھی سر انجام دیتی ہیں۔ جیسے جیسے پاکستان خاص طور پر پنجاب میں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ڈاکٹر فہمینہ کا ہسپتال میں لائے گئے مریضوں سے متعلق نقطہ نظر بھی تبدیل ہو رہا ہے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ لوگ اب زیادہ ڈرے سہمے ہوئے ہیں چاہے وہ کورونا کی کم علامات کی وجہ سے مشتبہ ہی کیوں نہ ہوں۔ 'مجھے یاد ہے کہ جب کورونا سے متعلق پہلا شخص کچھ علامات ظاہر ہونے کی وجہ سے ہمارے ہسپتال میں آیا تو وہ بہت پر اعتماد تھا۔ اس نے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصے میں اس کا چند چینی افراد سے میل جول رہا ہے اور اسے اب کچھ علامات ظاہر ہو رہی تھیں لہٰذا وہ ٹیسٹ کروانا چاہتا تھا۔ اس کی عمر محض 34 سال تھی۔
ڈاکٹر فہمینہ کا کہنا ہے کہ 'اب صورت حال مختلف ہے اور لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، اب تو یہ صورت حال ہے کہ لوگ یہ سننا بھی نہیں چاہتے کہ انہیں ٹیسٹ کے لیے جانا چاہیے۔ کورونا کا ٹیسٹ لینے کے لیے ان کی ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔' ایک سوال کے جواب میں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ڈاکٹر فہمینہ کا کہنا تھا کہ 'اس کی سب سے بڑی وجہ اس بیماری کی میڈیا میں تشہیر ہے جس نے اب ایک داغ کا روپ دھار لیا ہے۔'
'یہ بالکل ایسے ہی دکھائی دے رہا ہے جیسے ایڈز کے حوالے سے لوگ بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ جب بیماری ایک سماجی داغ کا روپ دھار لے تو اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جیسا کہ اب کورونا کے حالات میں ہو رہا ہے۔ لوگ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ اگر ان کا نام کورونا کے مشتبہ یا متاثرہ افراد میں آ گیا تو وہ عام لوگوں سے الگ ہو جائیں گے۔'
لوگ اب رازداری چاہتے ہیں
ڈاکٹر فیصل امین ایک جنرل فزیشن ہیں اور وہ لاہور کے مختلف نجی ہسپتالوں میں مرضوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'لوگ اب رازداری چاہتے ہیں، میرے پاس وہی مریض آتے ہیں جو پرائیویٹ علاج کروانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔'
'ایسا کوئی بھی مریض جس پر مجھے شبہ ہو کہ وہ کورونا کے لیے مثبت ہو سکتا ہے تو اس کو جب ٹیسٹ کروانے کا کہا جاتا ہے تو وہ پہلا سوال یہی کرتا ہے کہ اگر اس کا ٹیسٹ مثبت آ گیا تو کیا وہ اپنا پرائیویٹ علاج کروا سکتا ہے؟ اور میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، حکومت ہر ایک مریض کا ڈیٹا اکھٹا کر رہی ہے اور ایسی صورت میں انہیں وہی کرنا ہو گا جو محکمہ صحت تجویز کرے گا۔'
ڈاکٹر فیصل نے بھی اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ 'کورونا اب لوگوں کو سماجی سطح پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ لوگوں کو اب اجتماعی رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔' 'پنجاب حکومت نے کورونا کے مریضوں کو سنبھالنے اور ان کی نشان دہی کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کئی اقدامات کیے ہیں۔ جو مشتبہ مریض اپنی شناخت چھپانے کے لیے گھروں یا رشتہ داروں کی طرف چھپ جاتے ہیں انہیں تلاش بھی کیا جاتا ہے۔ اب نئے قواعد کے تحت جس گھر سے کورونا کا مریض نکلتا ہے اس گھر کے باہر نوٹس بھی چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ اس سے دور رہا جائے۔'
سیکرٹری صحت پنجاب کیپٹن (ریٹائرڈ) عثمان جنہوں نے ان قواعد کو تیار کیا ہے نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'یقیناً ہم ایک پیچیدہ صورت حال سے دو چار ہیں اور لوگ بیماری سے زیادہ اس چیز سے خوف زدہ ہیں کہ ان کا شمار اب کورونا کے مریضوں میں ہو گا۔'
'ہم نے جو قواعد بنائے ہیں وہ سراسر ان کوششوں کا حصہ ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس بیماری سے بچ سکیں۔ اگر گھروں کی نشاندہی نہیں کریں گے تو ان گھروں میں آنے جانے والے افراد کے متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہو گا۔'
'اس وبا کی نوعیت کی وجہ سے رازداری رکھنا ناممکن ہے، دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہو رہا اور اس وقت تو صرف بچاؤ کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ہاں لوگوں میں یہ اجتماعی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اسے نارمل سمجھیں۔ ہم کسی بھی مریض سے کوئی زبردستی نہیں کرتے، جیسے ہی ہمیں مصدقہ اطلاع ملتی ہے ہمارے عملے کے افراد اس جگہ پہنچ کر مریضوں کو قائل کر کے لے جاتے ہیں کہ وہ انتہائی نگہداشت میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔'
خوف کے عوامل کیا ہیں؟
ویسے تو کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، کہیں صورت حال زیادہ خراب ہے تو کہیں کم لیکن عمومی طور پر لوگ اجتماعی خوف کے گرداب میں ہیں۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ جو کہ صوبے کے ذہنی صحت کا سب سے بڑا ادارہ ہے کے ڈاکٹر سعد آصف اس مجموعی خوف کے عوامل سے متعلق بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'سب سے بڑا کام تو یہ سوشل میڈیا پر افواہوں اور جھوٹی خبروں نے خراب کیا ہے۔ ایک تو لوگ سوشل میڈیا پر اب پہلے سے بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، دوسرا وہاں پہنچنے والی خبروں کی صداقت کا کوئی طریقہ کار نہیں۔'
'جب آپ لوگوں کو بتائیں گے کہ گرم پانی سے وائرس مر جاتا ہے اور لوگ اس پر یقین کر کے صدقہ جاریہ سمجھ کر واٹس ایپ پر دھڑا دھڑ آگے بھی یہ بات بھیجیں گے تو جب وہ خود اس کا شکار ہوں گے تو پہلے وہ یہی ٹوٹکے آزمائیں گے۔'
ڈاکٹر سعد نے بتایا کہ 'اس وقت ہم سماجی خوف سے دوچار ہیں۔ اس لیے یقین کی حد تک وہم، پریشانی اور خوف نے ایک اجتماعی شکل اختیار کر لی ہے۔ اب دیکھیں کہ لوگ تو پہلے ہی ہسپتال جانے سے ڈرتے ہیں، اسی طرح پولیس پر لوگوں کا اعتماد بہت کم ہے اور جب وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس طرح مریضوں کو پولیس کے حصار اور ہسپتالوں میں ایک مخصوص حصے میں کڑی نگرانی میں دیکھتے ہیں تو ان کے پرانے خوف ان پر اور حاوی ہو جاتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس وقت اسی چیز کا ہمیں سامنا ہے اور اس کے لیے اب بڑے پیمانے پر میڈیا میں مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے اندر کا خوف ختم کیا جا سکے اور اس اچھوت والی سوچ کو نیچے لایا جائے، اس سے اجتماعی فائدہ ہو گا۔'
پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز سہیل سکھیرا سمجھتے ہیں کہ اس وقت کورونا کے مریضوں کو بالکل بھی ایسے ڈیل نہیں کیا جاتا کہ وہ کوئی اچھوت ہیں۔'
'جب ہمیں پتا چلتا ہے کہ کسی نے اپنی بیماری چھپائی ہے تو جب ٹیم اس گھر میں جاتی ہے تو صرف اور صرف محکمہ صحت کا عملہ اس کو ڈیل کرتا ہے۔ یہ معاملہ چونکہ حساس ہے اور باقی لوگوں کو محفوظ بنانا بھی بہت ضروری ہے اس لیے حفاظتی اقدامات کے طور پر پولیس اہلکار ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں تعاون کریں کیونکہ اس وبا سے اکھٹے مل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔'