Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاؤن میں نرمی: کہیں خوشی، کہیں غم

دکاندار چاہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں ان کو دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائیں (فوٹو: اے یف پی)
پنجاب حکومت کی جانب سے جزوی لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان اور 40 سے زائد صنعتوں اور شعبوں کو کھولنے کے احکامات کے بعد جہاں صوبے کے بیشتر کاروباری افراد خوش ہیں وہیں کاروباری افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو حکومت سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔
کئی کاروبار حکومتی احکامات کے بعد کھل گئے ہیں جبکہ بعض لوگوں نے کاروباری فہرست میں نام نہ ہونے کے باوجود اپنی دکانیں کھول لی ہیں۔ خاص طور پر صوبائی دارالحکومت کے حجام دوہرے مخمصے کا شکار ہیں۔
اس کی بڑی وجہ وفاقی وزرا کی پریس کانفرنس میں حجام کی دکانیں کھولنے کا اعلان تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے جاری فہرست میں بڑھئی، الیکڑیشن، درزی اور پلمبروں کو تو دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی البتہ حجاموں کے لیے یہ رعایت نہیں رکھی گئی۔
اس کے باوجود صوبائی دارالحکومت میں حجاموں نے خود ہی دکانیں کھول لی ہیں۔
ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں 'ثاقب ہیئر سلون' کے مالک ثاقب علی نے بتایا کہ ’میں نے خود ٹی وی پر دیکھا تھا میں نے تصویر بھی کھینچ لی تھی کہ حجاموں کو دکانیں کھولنے دی جائیں گی۔ میں نے اس اعلان کو دیکھتے ہوئے اپنی دکان کھولی۔ اب پتا چل رہا ہے کہ پنجاب حکومت نے ہمیں اجازت نہیں دی۔ یہ سراسر زیادتی ہے آپ باہر نکل کر تو دیکھیں آدھا لاہور کھلا پڑا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمارے بھی بچے ہیں 23 دن ہو گئے ہیں کچھ نہیں کمایا۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ لوگ گھروں میں بھوکے مر رہے ہیں تو جن کو اجازت نہیں دی جا رہی کیا وہ بھوکے نہیں مر رہے؟ حکومت چھوٹے دکان داروں سے امتیازی سلوک بند کرے۔‘
ثاقب نے بتایا کہ وہ گذشتہ 20 برس سے اس پیشے سے منسلک ہیں تاہم انہوں نے کبھی اتنا تکلیف دہ وقت نہیں دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ ’کل جب میں نے دکان کھولی تو خود لوگوں کو فون کر کر کے بتایا، کئی لوگوں کے خود بھی فون آئے کیونکہ خبر سب نے دیکھی تھی۔ مگر دکان کھولنے کے باوجود سارے دن میں صرف دو گاہک آئے اس کی وجہ یہ ہے کہ دکانیں کھولنے کا وقت پانچ بجے تک ہے اور ہمارے زیادہ تر گاہک تو نوکری پیشہ ہیں وہ خود پانچ بجے دفتروں سے چھٹی کرتے ہیں۔ مطلب ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی اگر ہم اس فہرست میں ہیں بھی تو ان اوقات میں ہمارے کاروبار کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

وفاقی حکومت نے حجاموں کی دکانیں کھولنے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

صوبائی دارالحکومت میں یہ مسئلہ محض حجاموں کا نہیں ہے کئی دیگر پیشوں اور کاروباری افراد نے زبردستی اپنے کاروبار کھولنے کی دھمکی دی ہے۔
کون سے افراد کاروبار کھولنے کو بیتاب؟
لاہور کے برانڈرتھ روڈ کے تاجروں نے لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر شیخ عرفان سے ملاقات کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جب ٹیکسٹائل کی صنعت کو کھولا گیا ہے تو ان فیکٹریوں کو پرزہ جات دینے والی دکانیں کیوں بند رکھی جا رہی ہیں۔ شیخ عرفان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے کافی مطالبات مان لیے ہیں اور کوشش ہے کہ باقی لوگوں کا مسئلہ بھی حل کیا جائے.
’ہم حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور جو بھی قواعد حکومت نے بنائے ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ہم یہ بھی چاہ رہے ہیں کہ حکومت بلا سود قرضے بھی کاروباری افراد کو دے اور کرائے معاف کیے جائیں تیرہ نکات کا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ ہم نے حکومت کے روبرو رکھا کے امید ہے حکومت اس پر دھیان دے گی‘
دوسری طرف کار ڈیلرز ایسوسی ایشن نے حکومت کو تین دن کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ انہیں بھی کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے۔

لاک ڈاؤن سے مزدور طبقہ متاثر ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

صدر کار ڈیلرز ایسوسی ایشن شہزادہ سلیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم اس بات میں بہت سنجیدہ ہیں اگر تین دن میں ہمیں کاروبار کھولنے کی اجازت نہ دی گئی تو ہم انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ یہ کیسے فیصلے ہیں بعض لوگ تو حکومت کو پیارے ہیں اور دوسروں پر پابندیاں ہیں۔‘
پنجاب حکومت کے لاک ڈاؤن میں نرمی کے حکم نامے نے کورونا سے لوگوں کی توجہ تقریباً ہٹا دی ہے اور دو ہفتوں سے گھروں میں بیٹھے کاروباری افراد اب اس کوشش میں دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کا نام بھی کسی طریقے سے اس فہرست میں شامل ہو جائے جن کو کاروبار کھولنے کے اجازت نامے دیے گئے ہیں۔
ادھر شہر میں مکمل سیل کیے گئے علاقوں کی تعداد بارہ سے بڑھا کر سولہ کر دی گئی ہے۔ جبکہ محکمہ صحت کے مطابق صوبہ بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 32 سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ جبکہ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں 216 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں