مسلسل بیٹھ کر کام کرنے والے کئی امراض کے نشانے پر ہوتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
طبی ماہرین ہوں یا فٹنس سے متعلق افراد، ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ مسلسل یا زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کرنا انسانی صحت کے لیے خطرناک اور کئی سنگین امراض کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔
آسٹریلوی محققین کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق دن بھر میں چار گھنٹے سے زیادہ بیٹھ کر کام کرنے والے ایسا کر کے سیڈینٹری لائف سٹائل کا رخ کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کی ٹانگوں میں اجتماع خون زیادہ ہو جاتا ہے۔
ڈرائیورز، انتظامی اہلکار، لکھنے والے، صحافی، کمپیوٹر سافٹ ویئر اور آئی ٹی پروفیشنلز سمیت متعدد پیشے ایسے ہیں جن سے وابستہ افراد اپنے جاگتے ہوئے وقت کا بیشتر حصہ بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق 'ایسے افراد گردن کے مہروں کی اکڑن، امراض قلب، کمر کے نچلے حصے کے درد، موٹاپے اور ٹانگوں میں بے چینی جیسی شکایات کا شکار ہو سکتے ہیں۔'
معالجین کے مطابق 'جوڑوں کا درد، شوگر، کینسر کی کچھ اقسام کے ساتھ ساتھ ذہنی امراض، ڈپریشن اور اینزائٹی بھی مسلسل بیٹھ کر کام کرنے والوں کے لیے تشویش کی بات ہو سکتی ہے۔'
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ 'آپ ورزش کریں یا نہیں اگر آپ دن میں طویل وقت کے لیے بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو ان امراض کا شکار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔'
یہ مسائل یا کام کے تقاضے کوئی نئی بات نہیں البتہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اس صورت حال میں خود کو صحت مند رکھنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔
طبی ماہرین کی جانب سے متنبہ کیا جا چکا ہے کہ جسمانی طور پر متحرک نہ رہنے کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ تیس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ یہ غیر متعدی امراض سے ہونے والی اموات کی چوتھی بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔
صحت بھی بحال رکھنی ہو اور خود کو سنگین خطرات سے بھی بچانا ہو تو بیٹھ کر کام کرنے والوں کو ممکنہ خرابی کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے کچھ احتیاطیں تجویز کی جاتی ہیں۔
اپنے بیٹھنے کے انداز کو دیکھیں کہ کہیں غلط انداز نشست کی وجہ سے کمر پر زیادہ بوجھ تو نہیں پڑ رہا، گردن مسلسل جھک تو نہیں رہی، ٹانگیں موڑ کر بیٹھنے سے جوڑوں کو اضافی کھچاؤ کا سامنا تو نہیں ہے۔ اپنے پاؤں کو وقتا فوقتا حرکت دیتے رہیں۔ ایک ہی پوزیشن میں مسلسل نہ بیٹھیں بلکہ کچھ وقفوں سے خود کو حرکت دیتے رہیں اور اپنے انداز نشست کو بدلتے رہیں۔
کھانے کے اوقات میں یا جب بھی ڈیسک سے اٹھنا ممکن ہو تو کچھ دیر ضرور چلیں۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ایک گھنٹے تک بیٹھے رہنے کے بعد آفس میں ہی چند قدم چل لیں، ممکن ہو تو تازہ ہوا میں چند قدم چلیں۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے آپ اپنے فون پر الرٹ لگا سکتے ہیں۔ کچھ مختصر ورزشیں، سٹینڈ اپس، بازوؤں کو گھمانا، پش اپس وغیرہ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔
اگر ممکن ہو سکے تو کنورٹیبل ڈیسک استعمال کریں جو آپ کو کام کے دوران یہ موقع دے کہ آپ بیٹھ کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر بھی کام کر سکیں۔ فٹنس ماہرین کے مطابق دن میں تین گھنٹے تک کھڑا رہنا 30 ہزار کیلوریز جلاتا ہے، عام حالات میں یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے کئی کلومیٹر چلنا پڑتا ہے۔
دفتر میں اپنے استعمال کی چیزوں پرنٹر، فون، کاپی مشین سمیت کم کم استعمال ہونے والی اشیا کو خود سے دور رکھیں تاکہ جب ان کی ضرورت پڑے تو آپ اپنی نشست چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ آفس میں سیڑھیاں اور لفٹ موجود ہوں تو سیڑھیوں کے استعمال کو ترجیح دیں۔
دفتر آنے جانے کے لیے گاڑی استعمال کرتے ہیں تو گاڑی کو بالکل قریب کھڑا کرنے کے بجائے تھوڑا دور کھڑا کریں تاکہ اپنی نشست سے اٹھنے کے بعد اس تک پہنچنے کے دوران چل سکیں۔
اپنے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ظاہر ہے آپ کوئی اور کام نہیں کر سکتے، اگر آپ کا پروفیشن آپ کو اجازت دے تو فون کال کرتے یا سنتے ہوئے چہل قدمی کر لیں تاکہ آپ کے مسلسل بیٹھنے میں کچھ وقفہ آ سکے۔
مسلسل بیٹھ کر کام کرنا خصوصاً کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن وغیرہ کی سکرینز سے وابستہ کاموں کا حصہ رہنے والے افراد بے خیالی میں آنکھیں جھپکانا کم کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں بعض اوقات آنکھوں میں جلن، دکھن یا خشکی کی شکایت ہو سکتی ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لیے ہر تیس منٹ یا مناسب وقفوں کے بعد اپنی آنکھیں کام کی سکرین سے ہٹائیں اور جتنا دور کا منظر دیکھنا ممکن ہو اسے غور سے دیکھیں، آنکھوں کو بار بار جھپکیں۔
جدید ٹیکنالوجی کی مدد لے کر بھی خود کو الرٹ رکھ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اپنے سمارٹ فون میں فٹنس یا صحت سے متعلق ایپ انسٹال کریں اور اسے فعال رکھ کر سامنے آنے والے ڈیٹا کی روشنی میں اپنے معمولات ترتیب دیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں