'ڈاکٹر فرقان نے خود گھر پر آئسولیٹ ہونے کا فیصلہ کیا': (فوٹو: روئٹرز)
کراچی میں کورونا وائرس سے متاثرہ ڈاکٹر فرقان الحق کو موت سے قبل وینٹیلیٹر نہ ملنے کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں۔
انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر باری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فرقان کو ہسپتال داخل ہونے کے لیے کہا گیا تھا مگر انہوں نے سماجی دباؤ سے بچنے کے لیے گھر میں آئسولیٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔
کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز (کے آئی ایچ ڈی) سے کچھ ماہ قبل ریٹائر ہونے والے ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر فرقان اور ان کی اہلیہ میں چار روز قبل کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
اتوار کی رات ان کی موت واقع ہو گئی جس کے بعد ان کے اہلِ خانہ اور متعلقہ افراد کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر فرقان دو گھنٹے تک ایمبولینس میں رہے مگر شہر کے کسی ہسپتال میں وینٹیلیٹر دستیاب نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے تحت چلنے والے ہسپتالوں کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمیٰ کوثر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈاکٹر فرقان نومبر میں کے آئی ایچ ڈی سے ریٹائر ہوئے اور آج کل ایک نجی ہسپتال کے ساتھ منسلک تھے. مبینہ طور پر وہ وہیں کورونا کا شکار ہوئے اور ان کی بیگم میں بھی وائرس کی تشخیص ہوئی۔
ڈاکٹر سلمیٰ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ سے رات ان کی بات ہوئی، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ دو گھنٹے تک ڈاکٹر فرقان کو ایمبولینس میں لے کر مختلف ہسپتالوں میں گئیں مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔
ڈاکٹر سلمیٰ کے مطابق ڈاکٹر فرقان کی طبیعت بگڑ گئی تھی اور انہیں وینٹیلیٹر پر رکھنے کی ضرورت تھی مگر کسی ہسپتال میں وینٹیلیٹر میسر نہیں ہوا۔ ’پہلے انہیں لے کر ایس آئی یو ٹی گئے، انڈس ہسپتال سے بھی رابطہ کیا اور پھر ڈاؤ اوجھا کیمپس پہنچنے لیکن تب تک ان کی موت واقع ہو گئی۔‘
دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے بھی کہا ہے کہ ڈاکٹر فرقان چار دن قبل کورونا کا شکار ہوئے تھے اور انہیں 24 گھنٹے قبل وینٹی لیٹر کی اشد ضرورت پڑی لیکن ایس آئی یو ٹی اور انڈس ہسپتال سمیت کہیں وینٹی لیٹر پر جگہ موجود نہیں تھی۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فرقان کو دو روز قبل ہی ہسپتال میں داخل ہونے اور وہیں مکمل ٹیسٹ اور علاج کروانے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔
’ڈاکٹر فرقان سماجی دباؤ کی وجہ سے ہسپتال آنے سے کترا رہے تھے، انہیں یہ پریشانی بھی تھی کہ اگر وہ اور ان کی بیوی کورونا مریض کے طور پر ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی قرنطینہ کر دیا جائے گا۔‘
ڈاکٹر عبدالباری نے اس تاثر کی سراسر نفی کی کہ ڈاکٹر فرقان نے اتوار کی شام انڈس ہسپتال سے رابطہ کیا تھا اور وینٹیلیٹر نہ ہونے کی وجہ سے ان کا علاج نہیں ہوا۔
ڈاکٹر باری، جو کہ کورونا وائرس کے روک تھام کے لیے بنائی گئی وزیرِاعلی سندھ کی ٹاسک فورس کے رکن بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ کراچی کے ہسپتالوں میں 98 وینٹیلیٹرز کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے کل رات کو صرف 26 وینٹیلیٹرز پر مریض زیرِعلاج تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر فرقان نے بر وقت علاج کی پیشکش سے انکار کیا جس کی وجہ سے ان کی طبیعت بگڑی۔
محکمہ صحت سندھ کی ترجمان میران یوسف کے مطابق ڈاکٹر فرقان نے رات پونے 10 بجے ایمبولینس کے لیے کال کی تھی اور 10 بجے ایمبولینس ان تک پہنچ گئی تھی جو رات سوا ایک بجے تک ان کے پاس تھی۔
میران نے بتایا کہ ڈاکٹر فرقان کو تین ہسپتالوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جہاں بیڈ موجود تھے۔
محکمہ صحت سندھ کے اہلکار عاطف حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے تا کہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ وینٹیلیٹرز نہ ملنے کے دعوے میں کتنی صداقت ہے۔
ڈاکٹر فرقان کی موت کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ رکن سندھ اسمبلی نفیسہ شاہ نے بیان دیا کہ کورونا وائرس سے صورتحال نہایت خراب ہوگئی ہے مگر وفاقی حکومت کو اب بھی معاملے کی سنگینی کا ادراک نہیں۔
اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے نیشنل کوآرڈینیٹشن کمیٹی کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں اور کہا کہ گذشتہ دو دنوں میں سندھ کے صرف 16 سے 18 کورونا کے مریض وینٹیلیٹر پر زیرِ علاج تھے، ایسی صورت میں ڈاکٹر فرقان کے علاج کے لیے وینٹیلیٹر نہ ملنا پیپلز پارٹی کی حکومت کی نا اہلی ہے۔
خیال رہے کہ فرنٹ لائن پر لڑنے والے متعدد ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ سندھ میں اب تک تین ڈاکٹر مہلک وائرس کے باعث جاں بحق ہوچکے ہیں۔