Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سعودی عرب سے 30 ہزار پاکستانی واپس آنا چاہتے ہیں‘

وزیرخارجہ کے مطابق پاکستان میں قرنطینہ اور ٹیسٹنگ کی سہولت بڑھنے سے پاکستانیوں کی وطن واپسی میں بھی اضافہ ہوگا (فوٹو: وزارت خارجہ)
پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی  نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں تیس ہزار سے زیادہ پاکستانی واپس آنا چاہتے ہیں اور خود کو رجسٹرڈ کراچکے ہیں۔
وزیرخارجہ کے مطابق ’فلائٹس کا ایشو نہیں ہے، انہیں بڑھا سکتے ہیں۔ مسئلہ کورونا ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی سہولت کا ہے جو کہ ناکافی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جہازوں میں لوگوں کو لانا آسان ہے لیکن ہمیں کورونا کے حوالے سے ایس او پیز پر عمل کرانا ہے۔ یہ پیچیدہ عمل ہے، اس میں وقت لگتا ہے۔
قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان میں جیسے جیسے قرنطینہ اور ٹیسٹنگ کی سہولت بڑھے گی،  پاکستانیوں کی وطن واپسی میں بھی اضافہ ہوگا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ایک ہفتے میں دو ہزار افراد کو واپس لا رہے تھے۔ ’اب ہر ہفتے سات سے ساڑھے سات ہزار واپس آرہے ہیں۔ پہلے صرف اسلام آباد ایئر پورٹ پر سہولت تھی، اب دیگر ایئر پورٹ بھی کھولے گئے ہیں۔‘
 شاہ محمود قریشی جمعرات کو سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے ٹاؤن ہال اجلاس میںان کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
اجلاس میں سپیشل سیکرٹری خارجہ معظم علی خان، وزارت خارجہ کے سینیئر افسران، سعودی عرب میں پاکستانی سفیر راجہ علی اعجاز، قونصل جنرل خالد مجید قونصلیٹ اور سفارتخانے کے افسران اور کمیونٹی کے افراد ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے۔
سوالات کے جواب میں شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر قرنطینہ کی سہولت کو بڑھانے کے لیے ہم صوبوں سےبات کر رہے ہیں۔
’صوبوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ ایس او پیز میں نرمی کریں۔ بیرون ملک سے آنے والےافراد کا اگر کورونا ٹیسٹ مثبت آئے اورعلامات زیادہ سنگین نہ ہوں تو انہیں گھروں میں سیلف آئسولیشن کی اجازت دی جائے۔ اس طرح ہم لوگوں کو تیزی سے واپس لا سکیں گے تاہم صوبے اس حوالے سےمحتاط ہیں۔‘

اس اجلاس میںوزارت خارجہ کے  دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے (فوٹو:وزارت خارجہ)

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانیوں کو سمندر کے راستے واپس لانے کی تجویز پر بھی غور کیا جا سکتا ہے لیکن سندھ حکومت کو چیلنج درپیش ہوگا کیونکہ سی پورٹ پر قرنطینہ کی سہولت موجود نہیں ہے۔ انہیں مشکل ہوگی۔ اگر سندھ حکومت آمادگی ظاہر کرے تو یہ آپشن زیر غور لایا جا سکتا ہے۔
ایک اور سوال پر شاہ محمود نے کہا ’سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں مقیم پاکستانی بے روزگار ہوئے ہیں۔ ان کی تنخواہیں کم ہوئی ہیں، یقینا ہوئی ہیں اور ہر جگہ ہو رہی ہیں لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اگر تنخواہیں کم ہوجائیں اور روزگار لگا رہے تو بہتر ہے۔ حالات نارمل ہونے پر تنخواہیں بحال ہوجائیں گی۔ لوگ اگر پریشانی کی وجہ سے واپس آجاتے ہیں تو پاکستان میں بھی آسانی نہیں ہے۔ سعودی عرب جیسا ملک اس وقت مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں، اس کا اثر پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بھی کورونا کا اثر پڑا ہے۔ پاکستان کوئی جزیرہ تو نہیں ہے جو اس سے محفوظ رہے۔ پاکستان واپس آنے والوں کو مشکلات ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا جس چیلنجز سے گزر رہی ہے اس کے اثرات معیشت پر بھی پڑے ہیں۔ کورونا بحران کا سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری ہے۔ وبا کے خاتمے کے بعد روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور لوگ زیادہ ہوں گے جس نے روزگار دینا ہے وہ اپنی شرائط پر ملازمت دے گا۔
بیرون ملک سے واپس آنے والوں کے حو الے سے شاہ محمود نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی سکلڈ ہیں وہ خود کو یہاں ایڈجسٹ کرلیں گے.انہیں کام کرنے کی عادت ہے اور وہ کام کرکے اپنی جگہ بنا سکیں گے۔

شاہ محمود نے کہا ’سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں پاکستانی بے روزگار ہوئے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے امیج کو برقرار رکھیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل منفی وڈیوز سے خود کو دور رکھیں۔ اس کے نقصانات ہیں۔ اگر آپ کی جائز مشکلات ہیں تو ان کے ازالے کے لیے مناسب طریقہ اختیار کیا جائے۔
وزیر خارجہ نے سعودی عرب میں معمولی جرائم اور جرمانے کی وجہ سے قید پاکستانیوں کی رہائی کے حوالے سے کہا کہ حکومت نے یہ مسئلہ پہلے بھی اٹھایا تھا اور اب بھی اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے مفت علاج بڑی سہولت ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک کے شہریوں کو زبردستی رخصت نہیں کیا جا رہا ، کوئی الٹی میٹم نہیں دیا۔  یہ  خوش آئند ہے جس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور سعودی وزیر خارجہ  کو بذریعہ خط بھی شکریہ ادا کروں گا۔
پاکستان میں کورونا کی صورتحال کے حوالے سے شاہ محمود نے کہا کہ اندازہ ہے کہ مئی کے آخر اور جون کے شروع میں اس وبا کا نقطہ عروج ہوگا اور ہم اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل مرتب کر رہے ہیں۔ 
صوبوں کو آراء دینے کا حق ہے۔ ہم ان کی آراء کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم تمام فیصلے قومی اتفاق رائے سے کیے جائیں۔

سعودی عرب میں بھی کورونا وائرس کے خلاف حفاطتی اقدامات لیے گئے ہیں (فوٹو: ایس پی اے)

شاہ محمود  نے کہا کہ پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا ہے جس میں کووڈ 19 کے حوالے سے منتخب نمائندوں کا موقف سنا جائے گا۔ 
انہوں نے کہا کہ ہمارے دو مقاصد ہیں ایک تو اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنا ہے اور دوسرا یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ وبا کتنا عرصہ چلے گی۔ صورت حال ابھی تبدیل ہو رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان جیسا ملک مسلسل لاک ڈاؤن نہیں رکھ سکتا۔ اس سے مزید افراد خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری برآمدات بہت حد تک کم ہو چکی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی رقوم میں بھی کمی آئی ہے۔

شیئر: