پاکستان میں ماسکس، سینیٹائزرز اور دستانوں کی مانگ بڑھ چکی ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سینیچر سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد معمولات زندگی واپس آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لیکن کورونا سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والے ماسکس، دستانوں اور سینیٹائزرز کی قیمتیں اب بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
اسلام آباد کی ایک بڑی فارمیسی کے مینیجر یوسف انصاری نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ حکومتی اعلانات کہ ان تینوں مصنوعات کی پیداوار ملک میں وافر مقدار میں ہو رہی ہے اور پاکستان ان کو برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے، کے باوجود مقامی مارکیٹ میں ان کی قیمتوں میں فوری کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
ان کے مطابق اس وقت این 95 ماسک مقامی مارکیٹ میں ہر میڈیکل سٹور پر دستیاب نہیں ہے کیونکہ اس کی قیمت اب بھی بہت زیادہ ہے اور عام شہری اس کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
’اس وقت بھی مارکیٹ میں این 95 ماسک 1800 روپے تک مل رہا ہے جب کہ کورونا آنے سے پہلے یہی ماسک 250 روپے کا ملتا تھا۔ عام سرجیکل ماسک کورونا آنے سے پہلے ہم مارکیٹ میں پانچ روپے کا بیچتے تھے جب کہ ہمیں یہ ہول سیل میں تین سے چار روپے کا ملتا تھا۔ اب یہ ہمیں 18 روپے کا ملتا ہے اور ہم گاہک کو 20 روپے کا بیچتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اسی طرح حفاظتی دستانوں کا ڈبہ کورونا سے پہلے مارکیٹ میں سات سو روپے کا تھا جو کہ اب ایک ہزار روپے تک دستیاب ہے۔ سینی ٹائزرکا 100 ملی میٹر کا پیک اب 250 روپے کا ملتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس آنے کے بعد عام سرجیکل ماسک 30 روپے تک پہنچ گیا تھا لیکن اب اس کی قیمت مستحکم ہو کر 20 روپے پر رک گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان اشیا کی قیمتوں میں فوری طور پر مزید کمی کا امکان نہیں ہے کیونکہ کورونا بیماری ابھی چل رہی ہے۔
دوسری طرف ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ), جو ملک میں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہے، کے حکام کا کہنا ہے کہ ماسکس، گلوز اور سینیٹائزرز کی قیمتیں متعین کرنا ان کے اختیار میں نہیں آتا۔
اتھارٹی کے ایک متعلقہ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابھی تک حکومت نے مرکزی سطح پر ماسکس، دستانوں اور سینیٹائزرز کی قیمتیں کم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کے اعلانات ہیں۔
ایک اور فارمیسی کے پرچیز آفیسر کے مطابق ان مصنوعات کی قیمتوں میں تھوڑی بہت کمی بھی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ حکومت کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کے اعلانات کے بعد وہ لوگ اپنے سٹاک مارکیٹ میں لے آئے ہیں جنہوں نے چین میں کورونا وائرس کے آتے ہی ماسکس، سینیٹائزرز اور دستانے ذخیرہ کر لیے تھے۔
وزارت تجارت کے ڈائریکٹر جنرل وقاص عظیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے این 95 اور سرجیکل ماسکس ابھی مارکیٹ میں نہیں آئے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ماسکس اور سینیٹائزرز کی برآمد کے متعلق یہ اعلانات کیے ہیں کہ ہم ان مصنوعات کو برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں لیکن ابھی تک کوئی چیز بھی برآمد نہیں کی گئی کیونکہ تمام مصنوعات ابھی مینوفیکچرنگ کی سطح پر ہیں اور ان کی کوالٹی کے معیار متعین کیے جا رہے ہیں۔
وقاص عظیم کے مطابق چین سے آنے والے ماسکس اور دیگرامدادی اشیا بھی مقامی مارکیٹ میں نہیں جا رہیں کیونکہ وہ این ڈی ایم اے کے ذریعے صوبائی حکومتوں اور ان کے ڈاکٹرز کو مہیا کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماسکس، دستانوں اور سینیٹائزرز کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی کی صورتحال کررہی ہے کیونکہ ان کو باقاعدہ طور پر ریگولیٹ نہیں کیا گیا۔
’ابھی اتنی بہتری آئی ہے کہ مارکیٹ میں چیزیں ملنا شروع ہو گئی ہیں، پہلے تو جب وبا آئی تھی تو یہ ماسک وغیرہ مارکیٹ سے بالکل غائب ہو گیے تھے۔ ابھی جب فیکٹریز سے پیداوار مارکیٹ میں آئے گی تو پھر ان کی قیمتیں کم ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔‘