بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں بہیمانہ تشدد کرکے ایک نوجوان کو ہلاک اور دو کو شدید زخمی کردیا ہے۔
پولیس نے زخمیوں کو دو گھنٹے کی کوششوں کے بعد ریسکیو کرکے ہسپتال منتقل کردیا۔
بروری تھانہ کے ایس ایچ او عزت اللہ نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ واقعہ جمعے کی شب تقریبا آٹھ بجے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں علی آباد کے مقام پر پیش آیا جہاں علاقے کے لوگوں نے دوسرے علاقے سے آنے والے تین نوجوانوں کو خواتین کی ویڈیو بنانے کے الزام میں پکڑا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایس ایچ او کے مطابق 300 سے 400 افراد پر مشتمل ہجوم نے تینوں نوجوانوں کو ایک حمام کی دکان میں لے جاکر ان کے کپڑے اتارے اور انتہائی بے دردی سے مسلسل مارتے رہے۔ پولیس موقع پر پہنچی تو ہجوم نے مزاحمت کی اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ پتھراؤ سے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او معمولی زخمی ہوئے۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے واقعہ پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور لاش کی تصاویر شیئر کرنے کی بھی مذمت کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
کوئٹہ: سوشل میڈیا پر مخالفین کے خلاف کورونا کا استعمالNode ID: 465761
-
کوئٹہ: حفاظتی سامان نہ ملنے پر ڈاکٹرز کا احتجاج، درجنوں گرفتارNode ID: 469881
-
’کہاں ہے کورونا‘؟ کراچی میں ہسپتال پر حملہNode ID: 481856
پولیس کے مطابق دو گھنٹے کی کوششوں کے بعد دو نوجوانوں کو شدید زخمی حالت میں ریسکیو کیا گیا جبکہ 23 سالہ تیسرے نوجوان کی موت ہوگئی تھی۔
لاش اور زخمیوں کو بولان میڈیکل ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق زخمیوں کو سر اور پورے جسم پر لاٹھیوں، ڈنڈوں، چاقو کے وار کے نتیجے میں گہرے زخم لگے ہیں اور ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ دونوں زخمیوں کو مزید علاج کے لیے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کردیا گیا۔
مقتول کی شناخت بلال احمد نورزئی کے نام ہوئی۔ زخمیوں میں خلیل احمد اور نیاز احمد شامل ہیں۔ تینوں کوئٹہ کے علاقے پشتون باغ کے رہائشی تھے۔ واقعہ کے بعد علاقے میں کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی۔
مقتول کے لواحقین اور پشتون باغ کے رہائشیوں نے لاش کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب زرغون روڈ پر دھرنا دیا اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
احتجاج میں شریک پشتون باغ کے رہائشی ولی محمد ترابی نے بتایا کہ پولیس کی موجودگی میں نوجوانوں پر بدترین تشدد کیا گیا، ان کے جسم دیکھنے کے قابل نہیں۔ لاش کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ تک نہیں کی۔
