پاکستانی ڈراموں میں ہر دوسرا ڈرامہ اُداسی کی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے (فوٹو: ان سپلیش)
انسان دماغی تناؤ کو کم کرنے کے لیے اکثر مختلف طرح کے ٹی وی شوز دیکھتا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ کچھ ڈرامے دماغی کیفیت کو بہتر کرنے کے بجائے اس پر منفی اثرات بھی مرتب کرسکتے ہیں۔
اگر پاکستانی ڈراموں کی بات کی جائے تو آج کل ہر دوسرا ڈرامہ اُداسی کی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فیصل راشد نے کہا کہ انسان جو بھی ڈرامہ دیکھتا ہے اس کے منفی یا مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ ’انسان بے شمار چیزیں انہی ڈراموں سے سیکھتا ہے۔ کیونکہ وہ اُن تمام چیزوں کو حقیقت سمجھتا ہے۔‘
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکڑ فیصل کا کہنا تھا کہ معاشرے میں پائے جانے والے مسائل کی حقیقت ان ڈراموں کے مقابلے بالکل مختلف ہے۔
دنیا بھر میں اب اس مسئلے کو اُجاگر کیا جا رہا ہے کہ دماغی صحت کے لیے کسی بھی کریکٹر کے منفی اور مثبت دونوں پہلوں کو دیکھانا چاہیے۔ ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دس سالوں میں پانچ آسکر آیورڈز مینٹل ہیلتھ سے متعلق بنائے گے موضوعات کو ملی ہیں۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اسی طرح کے موضوعات پر پاکستانی ڈرامہ انڈسڑی کو سامنے آنا چاہیے۔‘
حالیہ برسوں میں گھریلو نا چاقی پر بنائے گئے ڈراموں کو ناظرین کی جانب سے کافی پسند کیا گیا ہے۔ جن میں ’میرے پاس تم ہو‘ ’دو بول‘ اور اس جیسے بے شمار ڈرامے شامل ہیں۔
ڈاکڑ فیصل کے مطابق ان کہانیوں پر مبنی ڈرامے ڈپریشن اور حقیقی زندگی کے رشتوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ ’ڈرامہ انڈسڑی کو چاہیے کہ کسی بھی کردار کے منفی اور مثبت دونوں پہلوں کو دکھانا چاہیے تاکہ انسان اگر کسی چیز سے متاثر ہو رہا ہے تو اس کے دونوں پہلوں سے اچھی طرح باخبر ہو۔‘
80 کی دہائی میں دھوپ کنارے، تنہائیاں جیسے مشہور ڈرامے لکھنے والی مصنف حسینہ معین کے مطابق ’اب جو بھی ڈرامے بنائے جا رہیں ہیں۔ وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔‘
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جن موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی مثبت پیغام دیا جا رہا ہے۔
دنیا میں ڈپریشن کے مریضوں میں اضافے پر حسینہ معین نے کہا کہ پاکستان جیسے معاشرے میں بیوی اور شوہر کے شادی کے بعد بھی تعلقات رکھنے جیسے بے معنی موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں جس سے اس کو دیکھنے والے اس سے غلط مطلب اُخذ کر کے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں خواتین پر تیزاب پھیکنے کی واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حسینہ معین کا کہنا ہے کہ جب ان موضوعات پر ڈرامے بنائے جاتے ہیں تو ملزمان کو یہ پتا چلتا ہے کہ جب یہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔
’یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں ہے کہ نوے کی دہائی میں جو ڈرامے بنتے تھے وہ حقیقی زندگی کے بہت قریب ہوتے تھے۔‘
حسینہ معین کے مطابق اُس وقت جب پاکستان کے سرکاری چینل پر کوئی ڈرامہ نشر کیا جاتا تو سڑکیں خالی ہو جاتی تھیں۔ ’مگر اب بچے اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ڈرامہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ان میں ایسے جملے استعمال کیے جاتے ہیں جو بچوں کو والدین کے سامنے شرمندہ کر دیتے ہیں۔‘