انڈس ڈولفن دریائے سندھ میں ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے گذشتہ سال نومبر سے اپریل 2020 تک 14 ڈولفنز کو ریسکیو کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
گلگت میں مقابلہ نشانہ بازی : امریکی کھلاڑی نے مارخور مارگرایاNode ID: 390026
-
تلور کا غیرقانونی شکار، سات قطری باشندے گرفتارNode ID: 447461
-
مارخور کا قانونی شکار، اطالوی شہری نے 83 ہزار ڈالر ادا کیےNode ID: 448116
دریائےسندھ میں تعمیر کیے گئے متعدد ڈیمز کس طرح اس نایاب ڈولفن کی بقا کے لیے خطرہ ثابت ہو رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے ڈپٹی کنزرویٹر وائلڈ لائف سکھر ڈویژن عدنان حامد خان سے بات کی ہے۔
عدنان حامد نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ڈیم تو سو سال سے بنے ہوئے ہیں، ہوتا یہ ہے کہ ڈولفنز دریا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر رہی ہوتی ہیں جب کینال میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو یہ اس میں بہتی ہوئی بہت آگے نکل جاتی ہیں اور وہاں سے نکل نہیں پاتیں کیونکہ کینال سسٹم لاکھوں کلو میٹر تک پھیلا ہوتا ہے اسی لیے کینال کی مانیٹرنگ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'جب انڈس ڈولفن پانی میں بہت دور نکل جاتی ہے تو اکثر مقامی لوگ اسے نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ انہیں اس بارے میں علم نہیں ہوتا۔'
کینال میں پھنسی ڈولفن کو کس طرح ریسکیو کیا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 'انڈس ڈولفن کو ریسکیو کرنا بڑا مہارت طلب کام ہے۔ جال کے ذریعے ڈولفن کو کم پانی میں لا کر نکالا جاتا ہے اگر پانی چار فٹ سے زیادہ ہو تو اس کے بچنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔'

عدنان حامد نے بتایا کہ انڈس ڈولفن کے سر پر بلو ہول (blow Hole) ہوتا ہے جسے وہ اس وقت کھولتی ہے جب وہ مشکل میں پھنس جائے۔ بلو ہول کھل جانے سے پانی اس کے جسم میں پھیپھڑوں تک چلا جاتا ہے جس سے وہ فوراً ہی دم توڑ دیتی ہے۔
'اس لیے ہمیں ڈولفن کے بلو ہول کھولنے سے پہلے ہی اسے ریسکیو کرنا ہوتا ہے اور یہ 60 سے 80 سیکنڈ کا دورانیہ ہوتا ہے جس میں ہمیں اسے بچانا ہوتا ہے۔'
دریائے سندھ میں انڈس ڈولفن کی تعداد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 'اس وقت چشمہ بیراج سے کوٹری بیراج تک یہ 1900 کے لگ بھگ ہیں جبکہ گڈو اور سکھر میں ان کی تعداد 1419 ہے۔‘
انڈس ڈولفن کو نابینا ڈولفن بھی کہا جاتا ہے اس بارے میں انہوں نے کہا کہ 'کروڑوں سال پہلے اس کی آنکھیں ختم ہوگئیں اور اب تو آنکھوں کے کھڈے بھی ختم ہوچکے ہیں۔ یہ دیکھ تو نہیں سکتی مگر ایک خاص فریکوئنسی میں آواز چھوڑتی ہے جو انسانی کان نہیں سن سکتے۔‘
