Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ پہلے بھی ججز کی شکایات پر کارروائی نہیں کی‘

پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدلیہ اور ججوں کے خلاف توہین آمیز گفتگو پر مبنی ویڈیو پر لیے گئے نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل اور ویڈیو میں موجود افتخار الدین مرزا نامی شخص کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
جمعے کو مقدمے کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی عدالتی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے قبل بھی ایف آئی اے کو ججز نے شکایات کیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
سماعت سے قبل جب افتخار الدین مرزا سپریم کورٹ پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ 

 

سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'اٹارنی جنرل صاحب یہ سب کیا ہو رہا ہے؟' اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'جی بالکل میں نے دیکھا ہے۔ معزز جج کی اہلیہ نے تھانے میں درخواست دی ہے۔ پولیس نے معاملہ ایف ائی اے کو بھیج دیا ہے۔ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کر دی ہے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'ایف آئی اے کچھ نہیں کررہا. ایف آئی اے کے پاس ججز کے دیگر معاملات بھی ہیں۔‘
افتخار الدین مرزا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ باہر پولیس نے ان کے موکل کو حراست میں لے لیا ہے۔ مولانا صاحب خود عدالت آئے ہیں لیکن پولیس نے ان کو حراست میں لے لیا ہے اور ان کو اٹھا کر لے گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس ان کو پکڑ کر کیوں لے گئی ہے۔ مولانا صاحب کو بلا لیں۔ جس کے بعد افتخار الدین مرزا کو کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا۔
پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ آغا افتخار الدین کو حراست میں نہیں لیا گیا تھا بلکہ بٹھایا گیا تھا۔ 

چیف جسٹس گلزار احمد کے مطابق ایف آئی اے کو پہلے بھی ججز نے شکایات بھیجیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

عدالت نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر خود پیش ہو کر عدالت کی معاونت کریں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کوئی میکنزم نہیں کہ ہر سوشل میڈیا کی چیز کو مانیٹر کیا جاسکے۔ سوشل میڈیا اس قسم کے مواد سے بھرا پڑا ہے۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہر بار شکایت کیوں درج کرانا پڑتی ہے، ایف آئی اے خود کاروائی کیوں نہیں کرتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کی شکایت کے بعد کاروائی شروع کی گئی۔  ویڈیو میں اس عدالت کے معزز جج کو قتل کی دھمکی دی گئی۔ اس ادارے کے جج کا نام تضحیک آمیز انداز سے لیا گیا ہے۔ ریاستی مشینری نے ایکشن تاخیر سے کیوں لیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کو کچھ کرنا نہیں آتا۔ ایف آئی اے نے کسی معاملے پر نتائج نہیں دیے۔ 
عدالت نے آئندہ سماعت پر افتخار الدین مرزا اور ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کرتے ہوئے سماعت دو جولائی تک ملتوی کر دی۔

شیئر: