پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدلیہ اور ججوں کے خلاف توہین آمیز گفتگو پر مبنی ویڈیو پر لیے گئے نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل اور ویڈیو میں موجود افتخار الدین مرزا نامی شخص کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
جمعے کو مقدمے کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی عدالتی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے قبل بھی ایف آئی اے کو ججز نے شکایات کیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
سماعت سے قبل جب افتخار الدین مرزا سپریم کورٹ پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔
مزید پڑھیں
-
’جسٹس فائز کیس میں آرڈر کا کیا مطلب؟‘Node ID: 486461
-
فائز عیسیٰ کو دھمکی: سائبر کرائم کا معاملہ'Node ID: 487711
-
سپریم کورٹ کا ججز کے خلاف توہین آمیز ویڈیو پر نوٹسNode ID: 487846
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'اٹارنی جنرل صاحب یہ سب کیا ہو رہا ہے؟' اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'جی بالکل میں نے دیکھا ہے۔ معزز جج کی اہلیہ نے تھانے میں درخواست دی ہے۔ پولیس نے معاملہ ایف ائی اے کو بھیج دیا ہے۔ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کر دی ہے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'ایف آئی اے کچھ نہیں کررہا. ایف آئی اے کے پاس ججز کے دیگر معاملات بھی ہیں۔‘
افتخار الدین مرزا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ باہر پولیس نے ان کے موکل کو حراست میں لے لیا ہے۔ مولانا صاحب خود عدالت آئے ہیں لیکن پولیس نے ان کو حراست میں لے لیا ہے اور ان کو اٹھا کر لے گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس ان کو پکڑ کر کیوں لے گئی ہے۔ مولانا صاحب کو بلا لیں۔ جس کے بعد افتخار الدین مرزا کو کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا۔
پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ آغا افتخار الدین کو حراست میں نہیں لیا گیا تھا بلکہ بٹھایا گیا تھا۔
