پاکستان میں مارچ کے مہینے میں کورونا کے اثرات گہرے ہونا شروع ہوئے تو وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاون کے ساتھ ہی ایک ملک گیر تنظیم ’ٹائیگر فورس‘ کا اعلان کیا جس کا مقصد لاک ڈاون میں پھنسے افراد کی گھر گھر جا کر مدد کرنا اور ان کو راشن پہنچانا تھا۔
آج پاکستان میں اس وبا کو پھیلے چوتھا ماہ گزر رہا ہے، دو لاکھ سے زائد افراد اس کا نشانہ بن چکے ہیں، چار ہزار سے زائد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے اور ملک بھر کے 20 شہروں کے 540 کے قریب مقامات اس بیماری کا گڑھ بننے کے باعث ہرطرح کی نقل و حمل کے لیے بند ہیں، لیکن کورونا سے لڑنے والے یہ ٹائیگرز کہیں شاز و نادر ہی نظر آ رہے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے نوجوانان عثمان ڈار، جن کو اس فورس کی تشکیل کی ذمہ داری دی گئی تھی، کے مطابق 15 اپریل تک 9 لاکھ 41 ہزار افراد نے خود کو ٹائیگر ریلیف فورس کے رضا کار کے طور پر رجسٹر کروا لیا تھا۔ اب تک یہ تعداد بڑھ کر 10 لاکھ 9 ہزار 975 ہو چکی ہے، جس میں سب سے زیادہ رضاکار پنجاب کے 6 لاکھ 58 ہزار 467 ہیں۔
مزید پڑھیں
-
'ٹائیگر فورس کے نام میں کیا رکھا ہے؟'Node ID: 469196
-
کورونا ٹائیگر فورس کیسے کام کرے گی؟Node ID: 477036
-
کوئی اور چوائس نہیںNode ID: 488841
سندھ کے ٹائیگر فورس رضا کاروں کی تعداد ایک لاکھ 56 ہزار 964 ، خیبرپختونخوا سے ایک لاکھ 45 ہزار783 ، بلوچستان سے 15 ہزار 263 ، وفاقی دارالحکومت سے 14 ہزار 284 ، آزاد کشمیر سے 12 ہزار 397 اور گلگت بلتستان سے 6 ہزار 492 ہے۔
حکام کے مطابق ان رضا کاروں میں سے دو لاکھ پچیس ہزار لوگوں کو عملی ذمہ داریاں سونپی گئیں، یعنی انہیں متاثرہ لوگوں کی دہلیز پر جا کر ان کی مدد کرنے کا کام دیا گیا۔
لیکن یہ رضا کار ابھی اپنی خدمات کی نوعیت سمجھ ہی رہے تھے کہ ملک میں عملی طور پر لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا۔ جس کے بعد کچھ دنوں تک اس فورس کے وجود پر بادل چھائے رہے۔
پھر ایک روز وزیراعظم نے ان تمام ٹائیگرز کو متحرک کیا اور انھیں کورونا سے متعلق آگاہی پھیلانے، ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے اور ٹڈی دل کے خلاف اور شجر کاری مہم میں کردار ادا کرنے کی از سر نو مرتب کردہ ذمہ داریاں سنبھالنے کو کہا۔
مختلف شہروں میں ان کی حلف برداری کی تقاریب شروع ہوئیں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ ان کی تعیناتی کے متعلق گفت و شنید کا آغاز ہوا ہی تھا کہ حکومت کو ایک مرتبہ پھر کورنا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تحت ملک کے کئی علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاون کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔
ان حالات میں ٹائیگر فورس کے رضا کاروں کو ملک بھر کی مقامی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا کہ وہ جہاں چاہیں ان کو لوگوں کی مدد کے لیے تعینات کریں۔ توقع کی جارہی تھی کہ اس کے بعد ملک کے گلی گلی اور کونے کونے میں پھیل کر یہ رضا کار عوام کے ساتھ مل کر کورونا کو شکست دے دیں گے، لیکن تا حال ایسا نظر نہیں آیا۔
ٹائیگر فورس کی فعالیت کے متعلق ’اردو نیوز ‘ کے کیے گیے ایک ملک گیر سروے کے مطابق اس وقت صرف وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں کورونا ٹائیگر فورس ضلعی انتظامیہ کے ساتھ متحرک کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہے۔ جب کہ صوبائی سطح پر اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ جہاں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں وہاں اس فورس کا وجود تو ضرور ہے لیکن عملاً کردار انتہائی محدود ہے۔ صوبہ سندھ جہاں پیپلز پارٹی حکمران ہے وہاں اس تنظیم کو مقامی حکومت نے قبول ہی نہیں کیا اور بلوچستان میں بھی کورونا ٹائیگر فورس نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، جہاں کورونا ٹائیگر فورس سب سے زیادہ فعال ہے، یہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایس او پیز پر عمل کرانے میں مصروف ہے۔
اسلام آباد میں کورونا ٹائیگر فورس کے سٹی انچارج عدنان ریاض نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'انھوں نے لاک ڈاؤن کے دنوں میں راشن کی تقسیم سے لے کر کچی بستیوں میں آگاہی مہم چلائی۔ اب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقامی انتظامیہ کی ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے میں مدد میں مصروف ہیں۔'
کورونا ٹائیگرز کی لڑائی مہنگائی کے خلاف
اسلام آباد میں کورونا ٹائیگر فورس میں خواتین بھی شامل ہیں جو فیلڈ میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک قراۃ العین ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ضلعی انتظامیہ کی پرائس لسٹ لے کر مارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں اور اگر پرائس لسٹ کے مطابق کوئی دکاندار مہنگی اشیا فروخت کرتا ہے تو متعلقہ علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو آگاہ کرتے ہیں جو قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لاتے ہیں۔ ’اس کے علاوہ کورونا کے احتیاطی ایس او پیز پر عمل بھی کروا رہے ہیں۔'
اسلام آباد انتظامیہ نے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کے لیے بھی کورونا ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو ساتھ ملا کر مختلف علاقوں میں چھاپے مارنے شروع کیے ہیں۔ یہ چھاپے اسسٹنٹ کمشنرز کی سربراہی میں مارے جاتے ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر عبداللہ محمود نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ اب نہ صرف تنبیہہ کی جا رہی ہے بلکہ دکانیں سیل کرکے جرمانے اور گرفتاریاں بھی عمل میں لا رہے ہیں اور اس سلسلے میں کورونا ٹائیگر فورس کی خدمات بھی لی گئی ہیں۔
’صوبائی بیورو کریسی کورونا ٹائیگرز کو کام نہیں کرنے دے رہی‘
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سب سے زیادہ رضاکا رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں کورونا ٹائیگر فورس رضاکاروں کے حوالے سے تقاریب بھی ہوئیں۔
اس کے باوجود پنجاب میں کورونا ٹائیگر فورس کام کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اردو نیوز نے پنجاب کے مختلف شہروں میں رابطے کیے تو انتظامیہ کا دعویٰ تھا کہ کورونا ٹائیگر فورس کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہ ادا کر رہی ہے۔
تاہم راولپنڈی میں کورونا ٹائیگر فورس کے سرکل انچارج سعد محمد اعوان کے مطابق صوبائی انتظامیہ ان کی فعالیت کو روک رہی ہے۔
’ہم کام تو کر رہے ہیں لیکن پنجاب انتظامیہ نہیں چاہتی کہ ٹائیگر فورس بنے اور کام کرے۔ اسلام آباد میں کام اس لیے نظر آ رہا ہے کہ انتظامیہ ساتھ دے رہی ہے جبکہ پنجاب میں ہمیں ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے لیے برائے نام ٹریننگ دی گئی ہے جس کا دورانیہ آدھا گھنٹہ تھا۔‘
سعد محمد اعوان نے الزام لگایا کہ پنجاب کی بیوروکریسی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے کورونا ٹائیگر فورس کے حوصلے پست کر رہی ہے کیونکہ انھیں خطرہ ہے کہ یہ فورس کہیں ان کے لگے ہوئے بھتے اور کرپشن بے نقاب نہ کر دے۔
ان کے خیال میں کورونا ٹائیگر کی باقاعدہ شناخت اور اختیار نہ ہونا بھی ان کے کام کو مشکل بنا رہا ہے لیکن وہ اس کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔
’پشاور میں کورونا ٹائیگرز کا اتا پتہ نہیں‘
پشاور کے علاقے ڈبگری میں اس وقت سلیکیٹو لاک ڈاؤن ہے اور وہاں کے لوگوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں انھیں کورونا ٹائیگر فورس کی مدد کی ضرورت ہے لیکن مقامی افراد کے استفسار کے باوجود انھیں اس فورس کا اتا پتہ معلوم نہیں ہو سکا۔
’اردو نیوز‘ نے پشاور کے مختلف علاقوں کے مقامی افراد اصغر خان، روحیل احمد، رؤف علی اور سلطان خان سے الگ الگ دریافت کیا کہ انھوں نے شہر میں کسی جگہ کورونا ٹائیگر فورس کو کام کرتے دیکھا ہے تو سب کا جواب کم و بیش ایک سا ہی تھا کہ جب سے کورونا کی وبا آئی ہے، ٹائیگر فورس کا نام سن رہے ہیں لیکن ایک دن کے لیے بھی کوئی ٹائیگر دیکھنے کو نہیں ملا۔ ’ہم اپنے کام اپنی مدد آپ کے تحت ہی کر رہے ہیں۔‘
اردو نیوز نے خیبرپختونخوا حکومت اور مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ضلعی انتظامیہ کا موقف تھا کہ کورونا ٹائیگر فورس کو شہر کی مارکیٹوں میں ایس او پیز پر عمل درآمد کا کام دے رکھا ہے جو وہ سرانجام دے رہے ہیں۔
’کوئٹہ انتظامیہ نے کسی رضا کار کو نہیں بلایا ‘
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں اگرچہ سب سے کم رضا کار رجسٹرڈ ہوئے تھے لیکن وہ بھی میدان عمل میں نہیں اتر سکے۔
کوئٹہ سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے رہنما سردار زین العابدین خلجی نے بتایا کہ لورالائی، ہرنائی اور کچھ دیگر اضلاع میں کورونا ٹائیگر فورس اہلکاروں کی ضلعی انتظامیہ سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں تاہم صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں رجسٹریشن کرانے والے کسی بھی ٹائیگر کو بلایا ہی نہیں گیا۔
’بلوچستان میں کسی جگہ پر بھی کورونا ٹائیگر فورس نے کام کا آغاز ہی نہیں کیا۔‘
’اردو نیوز‘ نے اس صورتحال پر حکومتی موقف جاننے کے لیے وزیراعظم کے مشیر عثمان ڈار سے رابطہ کرنے کی بار ہا کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم پنجاب حکومت کی ایک ترجمان سنیہ ساجد نے استفسار پر بتایا کہ ٹائیگر فورس کی بڑے شہروں اور اہم مراکز میں نظر نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے علاقوں اور بستیوں میں کام کر رہے ہیں۔
سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ٹائیگر فورس پر لگی سیاسی چھاپ صوبائی حکومتوں اور بیورو کریسی کو اس کے رضاکاروں کو دور رکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔
سماجی ماہر ڈاکٹر امجد سرفراز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ 'کورونا ٹائیگر فورس کی تشکیل کے مقاصد ہی اتنی بار تبدیل ہوئے ہیں کہ کبھی ان سے کورونا ریلیف سرگرمیاں انجام دینے کا اعلان ہوا، کبھی شجر کاری کرنے اور ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے ان کی خدمات لینے کا اعلان ہوا۔‘
ان کے مطابق ضلعی انتظامیہ، بیوروکریسی اور ٹائیگر فورس کے درمیان روابط کی کمی اور بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کی وجہ مستقبل قریب میں آڈٹ کا خوف بھی ہوسکتا ہے جس میں ٹائیگر فورس کے نام پر استعمال ہونے والے فنڈز سے متعلق جواب انتظامیہ کو ہی دینا پڑے گا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں