طیارہ حادثہ: جب امریکی شہری کی میت غلط خاندان کو دی گئی
طیارہ حادثہ: جب امریکی شہری کی میت غلط خاندان کو دی گئی
جمعرات 2 جولائی 2020 15:39
توصیف رضی ملک -اردو نیوز، کراچی
یاسین العئی کو کراچی میں معلوم ہوا کہ ان کے والد کی میت تو کسی اور خاندان کو دی جا چکی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
پی آئی اے کے طیارہ حادثے میں امریکی شہری عبدالفتح العئی بھی ہلاک ہوئے تھے، ان کے بیٹے یاسین العئی جب اپنے والد کی میت وصول کرنے پاکستان آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد کی میت تو کسی اور خاندان کو دی جا چکی ہے جو اسے دفن بھی کر چکے ہیں، جبکہ انہیں پی آئی اے کی جانب سے گمراہ کیا جا رہا ہے۔
عبدالفتح کاروبار کی غرض سے پاکستان آتے جاتے رہتے تھے اور گذشتہ سال بھی کئی مہینے انہوں نے یہیں گزارے تھے۔ 22 مئی کو وہ کراچی آرہے تھے جب طیارے کے حادثے میں ان کی موت ہوگئی۔
حادثے کے 10 دن بعد 2 جون کو یاسین کراچی آئے تاکہ اپنے والد کی میت ان کے آبائی ملک لبنان لے جا سکیں، مگر یہاں آکر یاسین کو معلوم ہوا کہ ان کے والد کی میت تو کسی اور خاندان کو دی جا چکی ہے۔
یاسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ کراچی یونیورسٹی کی لیبارٹری میں 3 جون کو ان کا ڈی این اے سیمپل لیا گیا مگر اس کے ایک ماہ بعد بھی یہ رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔ یاسین نے طیارہ حادثے کے دیگر متاثرہ افراد کے لواحقین کی مدد سے اپنا ڈی این اے سیمپل لاہور کی لیباٹری میں بھجوایا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ ان کے والد کی میت چھیپا سرد خانے میں موجود ہے۔ مگر بعد میں پی آئی اے کے حکام نے یاسین سے غلط بیانی کی اور انہیں بتایا کہ ان کے رپورٹ میں کچھ مسائل ہیں۔
اس سب کے دوران یاسین نے اپنے ذرائع سے معلوم کر لیا تھا کہ ان کے والد کی میت کسی اور کو دی جا چکی ہے، جب یہ بات انہوں نے پی آئی اے کے حکام کو بتائی تو انہوں نے یاسین کی مزید مدد کرنے سے انکار کر دیا۔
یاسین نے خود ہی اس خاندان سے رابطہ کیا جو اس حوالے سے مکمل لا علم تھے، انہوں نے یاسین سے اس امر کی معافی مانگی اور کہا کہ وہ تو ڈاکٹروں کی نشاندہی پر میت لے کر آئے تھے اور اسے اپنے بھائی کی میت سمجھ کے دفنایا تھا۔
یاسین کا کہنا ہے کہ انہیں اس خاندان سے کوئی شکوہ نہیں۔ بعد میں اس خاندان کے ڈی این اے بھی پنجاب بھجوائے گئے جس کے بعد ایک اور میت کی نشاندہی ہوئی، جسے پھر اس خاندان نے عبدالفتح کی قبر کے ساتھ دفنایا۔ اس جنازے میں یاسین بھی شامل تھے۔
حادثے کے ڈیرھ ماہ بعد بھی یاسین کو اپنے والد کا سامان اور درست ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا۔
یاسین کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا سامان پی آئی اے کے پاس ہے، جو کہ انہیں دکھایا بھی گیا لیکن ان کے حوالے نہیں کیا جا رہا۔ اس کے علاوہ ان کے والد کے درست نام کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کیا جا رہا۔
یاسین نے مزید بتایا کہ پی آئی اے کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے اور ہر مرتبہ انہیں کہا جاتا ہے کہ کل ان کا کام ہو جائے گا، ’ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے لیکن یہ کل نہیں آرہا۔‘
یاسین کا کہنا ہے کہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے، اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ بات پی آئی اے عہدیداروں کو بھی معلوم ہے تبھی وہ تاخیری حربوں سے کام لے رہے ہیں۔ ’مجھے امریکی قونصلیٹ کے اہلکاروں نے بتایا کہ اگر میں یہ چیزیں لیے بغیر ایک بار یہاں سے چلا گیا تو دوبارہ ملنے کا امکان نہیں رہے گا۔‘
دوسری جانب طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے لواحقین بھی کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیبارٹری کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں جس نے متعدد میتوں کی مبینہ طور پر غلط شناخت کی۔ لواحقین نے اس حوالے سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے کہ حادثے کے بعد میتوں کی حوالگی میں اس قدر بد انتظامی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔