عالمی معیشت کی بحالی کے لیے سعودی عرب کا چھ نکاتی ایجنڈا
عالمی معیشت کی بحالی کے لیے سعودی عرب کا چھ نکاتی ایجنڈا
منگل 7 جولائی 2020 13:49
چھ نکاتی منصوبہ ایک خصوصی رپورٹ پر مشتمل ہے جس میں 750 عالمی بزنس لیڈرز کی رائے شامل ہے (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
سعودی عرب نے جی20 گروپ میں شامل اقوام کا صدر ہونے کی حیثیت سے چھ نکات پر مشتمل کاروباری منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد عالمی معیشت کو کساد بازاری اور کورونا وبا کے اثرات سے نکال کر بحال کرنا ہے۔
بی20 بزنس گروپ، جو جی20 کا حصہ ہے، کے چیئرمین یوسف البینیان نے ریاض سے ایک آن لائن سیمینار میں بات کرتے ہوئے عالمی وبا کے تناظر میں اقدامات کرنے بشمول پانچ کھرب ڈالر عالمی مارکیٹ میں ڈالنے کی ایک بار یقین دہانی کروائی ہے۔
لیکن انہوں نے متنبہ بھی کیا ہے کہ بڑی معیشتوں کو لاک ڈاؤن کے اثرات کم کرنے اور بیماری کی ممکنہ ’دوسری لہر‘ سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
البینیان کا کہنا تھا ’حکومتوں، عالمی انتظامی اداروں اور کاروباروں کے درمیان اشتراک و تعاون ہی وہ اہم اور مؤثر چیز ہے جس کی بدولت سرحدوں سے ماورا اس کثیر جہتی مسئلے کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’بی ٹوئنٹی کے خیال میں عالمی تعاون اور اتفاق کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے جس کی مدد سے کثیرجہتی اور نظام میں آنے والے اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔‘
چھ نکاتی منصوبہ ایک خصوصی رپورٹ پر مشتمل ہے جس میں 750 عالمی بزنس لیڈرز کی رائے کے علاوہ بیماری کے اثرات جو معشیت کو کساد بازاری میں دھکیلنے کے حوالے سے خطرہ ہیں سے نمٹنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
یہ رپورٹ شعبہ صحت کی بہتری، انسانی سرمائے کے بچاؤ اور معاشی عدم استحکام سے محفوظ رہنے کی تائید کرتی ہے۔
یہ ان اقدامات کے فروغ پر زور دیتی ہے جو عالمی رسد کی آزادی، پیداواری معاشی سیکٹرز کے احیا اور دنیا کی معیشت کو جدید ترین خطوط پر استوار کرنے سے متعلق ہیں جبکہ ’شمولیت اور ذمہ داری‘ کے فلسفے پر بھی زور دیتی ہے۔
رپورٹ کے حوالے سے ہونے والے سوال جواب کے ایک سیشن میں البینیان نے کہا کہ کاروباری قیادت کی سب سے پہلی ترجیح وائرس کے خلاف ویکسین کی تلاش ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں پانچ لاکھ تک افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ عالمی تجارت کو پھر سے کھولنے کے روٹس معاشی لاک ڈاؤنز کی وجہ سے بند ہوئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2009 کے معاشی بحران کے مقابلے میں اب جی ٹوئنٹی کا ردعمل کافی فعال اور تیز تھا لیکن ساتھ ہی انہوں نے مزید کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
خصوصاً بیماری کی ممکنہ واپسی اور اس سے نمٹنے کی تیاریوں کے حوالے سے انہوں نے خبردار کیا اور کہا کہ ’موجودہ وقت خوشیاں منانے کا نہیں ہے۔‘
ان کے بقول ’حکومتوں کی جانب سے کثیرالجہتی اداروں کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے تاکہ وہ عوام کی خدمت کر سکیں اور ان تمام چیزوں کو بڑھایا جائے جو وبا کے دوران یا اس کے بعد کے وقت کے لیے ضروری ہیں۔‘
یہ بات انہوں نے عالمی ادارہ صحت کے کردار، یو این اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ کے تناظر میں کہی، جو وبا کے دوران دنیا کے بعض قائدین کے نشانے پر آئے۔
البینیان نے کہا کہ وبا کے حوالے سے تیار کی جانے والی پالیسی ہر ملک کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب مانیٹری اتھارٹی کے گورنر نے کہا کہ 'یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وبا کے اثرات، کساد بازاری سے نکلنے کے بعد مملکت کی معیشت ایک تیکھے ’وی شیپ‘ سے گزرے گی۔'