انڈیا میں گذشتہ ہفتے آٹھ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے گینگسٹر وکاس دوبے کی پولیس مقابلے میں ہلاکت نے بے شمار سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
وکاس دوبے پر مختلف قسم کے 60 سے بھی زیادہ کیسز درج تھے جس میں قتل، لوٹ، مار پیٹ، اغوا برائے تاوان جیسے کیسز بھی شامل تھے۔
انڈین خبر رساں ایجنسی کے مطابق اتر پردیش پولیس نے بتایا کہ بارش کی وجہ سے سڑک پر پھسلن تھی جس کے سبب ان کو اجین سے لانے والی گاڑی کانپور ضلعے میں بھینتی کے مقام پر پلٹ گئی اور وکاس دوبے نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک زخمی پولیس اہلکار کی پستول لے کر بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس کی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہو گئے۔
مزید پڑھیں
-
’درد ناک ماحول میں نفرت انگیزوں کی انسانیت پر شک‘Node ID: 471771
-
'انڈیا کے وقار پر آنچ نہیں آنے دیں گے'Node ID: 482071
-
انڈیا: کورونا سے ہلاک افراد کی میتیں گڑھے میں پھینک دیںNode ID: 489256
پولیس کے مطابق انھیں چار گولیاں لگیں اور علاج کے دوران ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق دوبے کی موت ہسپتال میں آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔ اتر پردیش میں حزب اختلاف نے پولیس کے اس بیانیے پر سوال اٹھایا ہے۔
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے کانپور کے رہنے والے وکاس دوبے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا مجرمانہ کیریئر 30 سالوں پر مبنی تھا، انھیں سیاسی پشت پناہی حاصل تھی اور اسی وجہ سے وہ اب تک بچتے رہے۔
لیکن گذشتہ ہفتے دو تین جولائی کی درمیانی شب جب ان کو پکڑنے کے لیے ان کے گھر پر کئی پولیس تھانوں کی ٹیم پہنچی تو مقابلے میں آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے جبکہ وکاس دوبے اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پولیس کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت نے پورے انڈیا میں پولیس محکمے کی کارکردگی پر سوال اٹھائے اور یہ بھی پوچھا جانے لگا کہ جب پولیس ہی محفوظ نہیں تو عوام کیسے محفوظ ہو سکتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/July/36486/2020/000_1ux7si.jpg)
انڈیا میں وکاس دوبے کے لیے ریڈ الرٹ جاری کیا گیا اور اترپردیش میں بی جے پی کی یوگی حکومت پر دباؤ بھی بڑھنے لگا۔ کئی پولیس اہلکاروں پر انھیں دبش کے متعلق پہلے سے معلومات فراہم کرنے کے الزمات بھی لگے جس کے بعد کئی پولیس والوں کو معطل اور بعض کا تبادلہ کر دیا گیا۔
گذشتہ روز جمعرات کو انھیں مدھیہ پردیش میں اجین کے مہا کالی مندر سے گرفتار کیا گیا جس کے بارے میں بھی ناقدین نے بہت سے سوالات کیے کہ حکام کی ساز باز سے ہی انھیں پکڑا گیا ہے۔ پکڑے جانے کے وقت کی ویڈیو میں وکاس دوبے چیخ کر کہتے ہیں ’میں ہوں وکاس دوبے کانپور والا۔‘
اترپردیش میں کانگریس کی انچارج اور سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیٹی اور اندرا گاندھی کی پوتی پرینکا گاندھی نے وکاس دوبے کی ہلاکت پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے اس کے متعلق متواتر ٹویٹ کیے اور اپنی ایک ویڈیو بھی اپ لوڈ کی۔
گذشتہ روز جمعرات کو ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ’کانپور کے بدنام زمانہ قتل کے معاملے میں یوپی حکومت کو جس مستعدی سے کام کرنا چاہیے تھا، وہ پوری طرح فیل ہو گئی۔ الرٹ کے باوجود ملزم کا اجین تک پہنچنا نہ صرف سکیورٹی کے دعوؤں کی پول کھولتا ہے بلکہ ملی بھگ (ساز باز) کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/July/36486/2020/thumbnail_20200709040l_0-770x433.jpeg)
ایک دوسرے ٹویٹ میں پرینکا گاندھی نے لکھا ’مجرم کا خاتمہ ہو گیا لیکن انھیں تحفظ فراہم کرنے والوں کا کیا؟‘
اس کے تھوڑی دیر بعد انھوں نے اپنی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا ’اترپردیش کی قانون اور نظم و نقس کی حالت بدتر ہو چکی ہے۔ سیاست دان اور مجرموں کی ساز باز ریاست پر حاوی ہے۔ کانپور معاملے میں اس گٹھ جوڑ کی سانٹھ گانٹھ کھل کر سامنے آئی۔ کون کون لوگ اس طرح کے مجرم کی پرورش میں شامل ہیں۔ یہ سچ سامنے آنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے موجودہ جج سے پورے معاملے کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔‘
उप्र की कानून-व्यवस्था बदतर हो चुकी है। राजनेता-अपराधी गठजोड़ प्रदेश पर हावी है। कानपुर कांड में इस गठजोड़ की सांठगांठ खुलकर सामने आई।
कौन-कौन लोग इस तरह के अपराधी की परवरिश में शामिल हैं- ये सच सामने आना चाहिए।
सुप्रीम कोर्ट के मौजूदा जज से पूरे कांड की न्यायिक जाँच होनी चाहिए pic.twitter.com/vRHQlsaJ3y
— Priyanka Gandhi Vadra (@priyankagandhi) July 10, 2020
پرینکا گاندھی نے اپنے ویڈیو میں اترپردیش کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’پورا ملک دیکھ رہا کہ بی جے پی کی حکومت نے اترپردیش کو اپرادھ (جرم) پردیش بنا دیا ہے۔ ان کے اپنے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ ریاست بچوں کے خلاف جرائم کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے، دلتوں (پسماندہ طبقہ) کے خلاف جرائم میں پہلے نمبر پر ہے، خواتین کے خلاف جرائم میں پہلے نمبر پر ہے، غیر قانونی ہتھیار اور اسلحوں کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے، قتل کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ ریاست کی صورت حال ہے۔‘
سوشل میڈیا پر جہاں وکاس دوبے ٹرینڈ کر رہا ہے اس سے کہیں اوپر ’فیک انکاؤنٹر‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ معروف صحافی سگاریکا گھوش نے فیک انکاؤنٹر اور وکاس دوبے دونوں ہیش ٹيگ کے ساتھ لکھا ’انڈیا کا انکاؤنٹر راج۔ تشدد سے صرف تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر ایک انکاؤنٹر کے بعد سکیورٹی ایجنسیوں اور اس کے باہر دونوں جانب مجرم پیدا ہوتے ہیں۔ تشدد کووڈ کی طرح بہت ہی انفیکشن پیدا کرنے والا ہے۔‘
India’s “encounter raj”. Violence only begets more violence. After every “encounter” criminals are created on both sides, within the security agencies and outside. Violence is like Covid, very infectious. #fake_encounter #VikasDubey https://t.co/cCl1r4oh1X
— Sagarika Ghose (@sagarikaghose) July 10, 2020
سیاسی ایکٹیوسٹ اور سیاسی موضوعات پر بولنے والے تحسین پونا والا نے ٹویٹ کیا کہ انھون نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن میں وکاس دوبے کے مبینہ فیک انکاؤنٹر کے خلاف جمعے کی صبح شکایت درج کی ہے کہ یہ اترپردیش کے سیاست دانوں اور يوگی آدتینہ ناتھ کی حکومت اور دوسرے پولیس افسروں کو بچانے کی ’سکرپٹ‘ کا حصہ تھا۔‘
I have filled a complaint with the National Human Rights Commission on the alleged #fake_encounter of #vikasDubeyEncounter this #fridaymorning as part of a "script" to protect UP politicians & the Yogi Adityanath ji govt & other UP police officers. #vikasDubeyEncounter pic.twitter.com/d5JlHM4BmC
— Tehseen Poonawalla Official (@tehseenp) July 10, 2020
اس ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے اپنی شکایت کی کاپی بھی پوسٹ کی ہے۔
ایک ریٹائرڈ پولیس افسر این سی استھانا نے لکھا ہے کہ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کی اشتعال انگیز کہانی۔ گاڑی سڑک کے کنارے ’آرام‘ سے الٹی پڑی ہے، سارے دروازے بند ہیں۔ سڑک کی حالت پر بھی غور کریں۔ گاڑی اس ’آسانی سے‘ پلٹنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کھلے کھیت چاروں طرح، کوئی بے وقوف بھی ایسے کھلے میں بھاگنے کے بارے میں نہیں سوچے گا۔‘
اس ٹویٹ کے جواب میں بی بی سی کے ایک صحافی راجیش پریہ درشی نے لکھا ’کوئی مانے تو کیسے مانے، سیدھی سڑک پر بے وجہ الٹ گئی گاڑی، بھاگنے والے کے سینے پر گولی لگی، عجیب و غریب ہے پورا معاملہ، اتنا عجیب کہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کوئی ہنسے یا روئے۔‘
कोई माने तो कैसे माने, सीधी सड़क पर बेवजह उलट गई गाड़ी, भागने वाले के सीने पर लगी लगी, अजीबोगरीब है पूरा मामला, इतना अजीब कि समझ में नहीं आ रहा है कि कोई हँसे या रोए. https://t.co/08426xr6gD
— Rajesh Priyadarshi (@priyadarshibbc) July 10, 2020