وزارت سمندر پار پاکستانیز نے کورونا وائرس کے باعث بے روزگار ہو کر وطن واپس لوٹنے والے پاکستانیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ایک پورٹل کا اجراء کیا ہے۔ اس پورٹل پر اب تک 41 ہزار سے زائد پاکستانی رجسٹر ہوچکے ہیں۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اس آن لائن رجسٹریشن سسٹم میں بیرون ملک سے بے روزگار ہوکر لوٹنے والے پاکستانیوں کو اپنا اندراج کرنے کو کہا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
اوورسیز پاکستانیوں کو بھولے نہیں: وزیراعظمNode ID: 472806
-
'بے روزگاری میں تاریخی اضافہ'Node ID: 477526
-
پاکستانیوں کی واپسی،پروازوں کا نیا شیڈول جاری نہ ہو سکاNode ID: 489631
پورٹل پررجسٹر ہونے والے فرد کا نام، ولدیت، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نمبر اور دیگر بنیادی معلومات کے علاوہ پیشہ وارانہ تعلیم، ہنر سرٹیفیکیٹ، جس ملک میں کام کیا وہاں کی تفصیلات اور اقامہ وغیرہ کے بارے میں تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
یہاں رجسٹریشن کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اکاؤنٹنٹ اور ڈاکٹر سے لے کر مزدور تک کم و بیش 60 شعبہ جات کا آپشن رکھا گیا۔ اسی طرح انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔
رجسٹر کرنے والے سے یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ اسے نوکری سے نکالا گیا ہے یا چھٹی دے کر پاکستان بھیجا گیا ہے۔
بے روزگار پاکستانیوں کو پورٹل سے کیا فائدہ ہوگا؟
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کاشف احمد نور نے بتایا کہ 'پورٹل پر رجسٹر ہونے والوں کو ترجیح دی گئی ہے کہ انہیں نئے سرے سے بیرون ملک روزگار فراہم کیا جائے۔ اس سلسلے میں اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن اور بیورو آف امیگریشن مل کر کردار ادا کریں گے۔'

ان کے مطابق 'رجسٹریشن سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی ہنر مند نے کسی ایک شعبے میں کوئی ڈپلومہ یا سرٹیفیکیٹ حاصل کر رکھا ہے تو اسے ٹیوٹا یا نیوٹیک یا فنی تعلیم کے کسی دوسرے ادارے میں اپنی فنی تعلیم میں اضافے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس رجسٹریشن کا تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی وجہ سے بیرون ملک ملازمت نہیں ملتی تو ہنر مند افراد کو پاکستان میں ہی ان کی مہارت کے پیش نظر ملازمت دینے کی کوشش کی جائے گی۔'
انہوں نے کہا کہ 'بیرون ملک سے وطن واپس لوٹنے والے افراد میں سے مالی طور پر کمزور افراد کو احساس پروگرام کے ذریعے مالی مدد اور اور وزیر اعظم کے یوتھ پروگرام کے ذریعے امداد فراہم کی جائے گی۔'
جاب پورٹل یا ڈیٹا کلیکشن فارم؟
ریکروٹمنٹ اور ایمپلائمنٹ میں وسیع تجربہ رکھنے والے محمد انصر نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں وزارت سمندر پار پاکستانیز کے پورٹل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ جاب پورٹل نہیں ہے بلکہ ڈیٹا کیلکشن فارم ہے جس کے ذریعے حکومت صرف معلومات جمع کر رہی ہے۔‘

ان کے مطابق 'جاب پورٹل وہ ویب سائٹ ہوتی ہے جو ملازمت کے خواہش مند افراد اور ملازمت دینے والی کمپنیوں کے لیے پلیٹ فارم کا کام کرتی ہے۔ اس پورٹل پر جو پروفائل بن رہی ہے وہ بالکل بنیادی نوعیت کی ہے اور اس میں سی وی اپ لوڈ کرنے کا آپشن بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ پورٹل کسی بھی بین الاقوامی یا مقامی نوکریوں کا اعلان کرنے والی ویب سائٹس جیسے روزی ڈاٹ کام وغیرہ سے منسلک نہیں ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'اس پورٹل کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ اس کا مقصد محض افراد گننا ہے کہ کتنے لوگ وطن واپس آئے ہیں اور نوکری کی خواہش رکھتے ہیں۔'
اس حوالے سے ڈی جی پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کا کہنا ہے کہ ابھی یہ پورٹل ابتدائی نوعیت کا ہے۔ جس کا مقصد بے روزگار ہونے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔ یہ ڈیٹا تمام متعلقہ اداروں کو بھیجا جائے گا جو اپنے کام کے لحاظ سے ان افراد کو سہولت پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
ان کے مطابق اوورسز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کا جاب پورٹل بھی بن چکا ہے جہاں پر بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے ملازمت کے مواقع کی تشہیر کی جائے گی اور وہاں پر لوگ براہ راست نوکری کے لیے اپلائی بھی کر سکیں گے۔

’جاب پورٹل سفارتخانوں کی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش‘
کورونا کے باعث زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک سے ہی بے روزگار ہوئے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں وطن واپس آ چکے ہیں۔ بیرون ملک میں مقیم بے روزگار ہونے والے پاکستانیوں نے اس پورٹل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قبل از وقت اقدام ہے اور بیرون ملک سے پاکستانیوں کی وطن واپسی میں تاخیر، پی آئی اے کے مہنگے ٹکٹوں اور مختلف سفارت خانوں کی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی عرب سے وطن واپسی کی خواہش رکھنے والے منور علی کہتے ہیں 'حکومت کو نوکریاں دینے کا وعدہ پاکستان میں موجود لوگوں کے ساتھ پورا کرنا چاہیے۔ بیرون ملک سے واپس جانے والے حالات بہتر ہونے پر خود ہی واپس آجائیں گے۔ یہاں سے واپسی کے لیے لوگ کئی کئی ماہ سے کوششیں کر رہے ہیں لیکن ٹکٹ ہی نہیں ملتا۔ ٹکٹ لینے کے لیے کبھی سفارت خانے میں لسٹ بنتی ہے تو کبھی پی آئی اے دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ پورٹل بنانا تھا تو سب کے وطن واپس پہنچنے پر ہی بنا لیتے۔'
