واش رومز کی طرح نرسنگ رومز کی بھی ضرورت ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی بہت کفنیوژڈ قوم ہیں۔ یہ ایک طرف ان ماؤں کو ماں ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں جو بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں تو دوسری طرف اگر کوئی ماں عوامی مقامات پر اپنے بچے کو گود میں اٹھائے سینے سے چمٹائے دکھائی دے جائے تو بھی معاشرے میں انتشار، عوام میں ہیجان اور خاتون کی شرم و حیا کے رخصت ہوجانے کے خیال سے یہ بوکھلا جاتے ہیں۔
لاہور ایئرپورٹ کے ویٹنگ لائونج میں نرسنگ کیبن کیا نصب ہوا، سمجھیں بھونچال آگیا ہے۔ کہاں ’٭٭٭سٹ‘ کے لفظ پر گھبرا جانے والی ہماری بیچاری قوم اور کہاں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اتنا بڑا گلابی ڈبہ لا کھڑا کیا جس پر جلی حروف میں درج ہے ’بریسٹ فیڈنگ باکس‘۔
خیر اب کیا کیا جائے کہ ہم کو اعتراض کرنے کی اس قدر عادت ہوچکی ہے کہ اب اور کچھ نہیں ملا تو اسی لفظ پر طوفان اٹھا کھڑا کردیا کہ جی نرسنگ روم کیوں نہیں لکھا گیا اور ایسے کھلم کھلا الفاظ میں بریسٹ فیڈنگ باکس کیوں لکھا گیا۔
اب یہ تو خود ہمیں بھی معلوم نہیں کہ اس منے سے کیبن پر نام لکھوانے والے نے کیا سوچ کر یہ نام منتخب کیا لیکن عام خیال یہی ہے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح کو دیکھتے ہوئے اس امر کا بخوبی خدشہ موجود تھا کہ اگر نرسنگ کیبن لکھا جاتا تو سادہ لوح مسافر ’نرس‘ کی تلاش میں کیبن میں داخلے کی ضرور کوشش کرتے۔
خیر اس لفظ کا تخلیق کار تعریف کا مستحق ہے کہ اس نے اگرچہ سوشل میڈیا کی پیالی میں طوفان تو کھڑا کردیا مگر کم از کم اس طرح قوم کو ایک نئے رُخ پر سوچنے کا موقع بھی دیا۔
پاکستانی خواتین راہ چلتے، بس میں سفر کرتے، ٹرین میں فیڈر پیتے بچے کی ماں کو ڈبے کے دودھ کے نقصانات تو گنوانا نہیں بھولتی ہیں لیکن صورتحال یہ ہوتی ہے کہ یہ سوال بھی اشاروں کنایوں میں ہی ہوتا ہے کہ ’اپنا یا اوپر کا؟‘ اب خود ہی سوچیں جہاں پر حیا بیچاری اس قدر کمزوری کا شکار ہو کہ ایک قدرتی عمل کے بارے میں سوال بھی خفیہ زبان میں کیا جاتا ہو وہاں عوامی مقامات پر ایسے کیبنز کی تنصیب کیا کیا گل نہ کھلائے گی۔
کسی کو خدشہ ہے کہ یہ کیبن تو الٹا خواتین کے تحفظ کیلے ہی خطرہ ہے۔ اندر بیٹھی تن تنہا ماں اپنی عزت کی حفاظت کیسے کرے گی؟ تو کسی کے خیال میں بیچاری ماں جب اس ڈبے سے باہر نکلے گی تو لوگوں کی نگاہوں کا سامنا کیسے کرے گی؟
ویسے یہ اعتراض کرنے والے بھی خوب ہیں۔ گویا ہمارے پاکستانی بھائی کسی بھی سڑک پر چلتی خاتون کو دیکھ کے نگاہیں زمین پر گاڑھ لیتے ہیں۔ بھئی ہمارا تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے والی خواتین خواہ برقعے میں ملفوف ہوں یا جینز ٹی شرٹ میں، ہمارے بھائی حضرات گلی کے کونے تک رخصت کرتے ہیں۔
ایسے میں اس گلابی ڈبے سے نکلنے والی عورت کسی نئے تجربے سے تو گزرے گی نہیں لیکن تنقید کرنے والوں کی رائے میں بیچاری عورت خود پر گڑھی نگاہوں کے سبب خاصی زچ ہوگی اور ڈبے نما کیبن کی موجودگی میں وہ پہلے کی طرح کسی دیوار کی جانب منہ کیے بچہ گود میں لے کے بیٹھنے کے قابل بھی نہ ہوگی۔
سچ تو یہ ہے کہ ایسے نرسنگ کیبنز کی تنصیب انوکھا اقدام ہرگز نہیں۔ یہ کیبنز بھی انسانی ضروریات کی عین اسی طرح عکاسی کرتے ہیں جس طرح کہ عوامی مقامات پر نصب واش رومز۔ ان کا رواج بھی اسی قدر عام ہونا چاہیے جس قدر کہ واش رومز کا۔ پاکستان میں بننے والے نئے جدید مالز میں اب نرسنگ کیبنز کا رواج عام ہو رہا ہے لیکن شاید عوام کی ان سے ناواقفیت کا ہی نتیجہ ہے کہ سی اے اے کو نرسنگ کیبن کی جگہ ’ٹوں ٹوں ٹوں فیڈنگ کیبن‘ کا نام لکھنا پڑا۔ ایسے کیبنز ہوائی اڈے ہی نہیں بلکہ ریلوے سٹیشن لاری اڈے، بازاروں میں بھی ہونے چاہیئں۔