کورونا کرفیو کے دوران یہ کام بہترین مشغلہ ثابت ہوا(فوٹو، سبق)
سعودی عرب کے شہر مکہ میں مقیم ایک سکول ٹیچر نے گاڑیوں کے ناکارہ ٹائروں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے گھر کو سجا دیا۔ انہوں نے ٹائروں کو کاٹ کر انہیں خوبصورت گملوں اور گلدانوں میں تبدیل کیا ہے۔
بندر صالح حکمی جو کہ مکہ کے ایک سکول میں ٹیچر ہیں نے ویب نیوز ’سبق‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کورونا کی وبا نے گذشتہ دنوں دنیا بھرکے لوگوں کو ان کے گھروں میں محصور کرکے رکھ دیا تھا۔ اس دوران سعودی عرب کے تمام شہروں میں بھی کرفیو نافذ تھا۔ تعلیمی ادارے بند تھے اور ہر کوئی اپنے گھر میں مقید تھا۔ ایسے میں وقت گزارنے کے لیے میں نے سوچا کیوں نہ گھر کے بیرونی صحن کو اس انداز میں سجایا جائے جو منفرد بھی ہو اور خوبصورت بھی لگے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا بنیادی مقصد اپنے بچوں کو اس بات کا بھی درس دینا تھا کہ کس طرح مثبت انداز میں خود کو مصروف رکھا جا سکتا ہے۔انہیں اس کی بھی تعلیم دینا تھی کہ ناکارہ چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے انہیں کس طرح کارآمد اور منفرد اشیا میں تبدیل کرنا ممکن ہے‘۔
بندر صالح حکمی جو سکول میں فائن آرٹ کے ٹیچر ہیں نے مزید بتایا کہ ’گاڑیوں کے ناکارہ ٹائروں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعے منفرد چیزیں بنانے کا خیال مجھے اس وقت آیا جب ایک دن میں نے گھر آتے ہوئے راستے میں کافی ٹائر پڑے دیکھے۔ اپنے خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے میں نے ٹائر اٹھائے اور گاڑی میں رکھ دیے۔ گھر پہنچ کر تمام ٹائر گودام میں رکھے، بعد ازاں بازار سے بجلی کا کٹر اور دیگر اشیا خریدیں‘۔
اب مسئلہ تھا کہ ٹائروں کو مختلف شکلیں کس طرح دی جائیں جس کے لیے سب سے پہلے انہوں نے کمپیوٹر پر مختلف ڈیزائن بنائے۔ ٹائروں کو صاف کرنا بھی اہم مرحلہ تھا جس میں دو دن لگے۔ تمام ٹائروں کو اچھی طرح دھو کر انہیں جراثیم کش محلول سے صاف کیا تاکہ کسی قسم کا وائرس ان ٹائروں کے ذریعے منتقل نہ ہوسکے۔
بندر صالح حکمی کو ناکارہ ٹائروں کو خوبصورت گلدان اور گملوں میں تبدیل کرنے کے کام کا آغاز کرنے کے لیے کوئی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سب سے اہم مسئلہ انہیں کاٹ کر اپنے ڈیزائن کے مطابق ڈھالنا تھا، بعد ازاں انہیں رنگ کرنے کا مرحلہ تھا کیونکہ میں فائن آرٹ کا ٹیچر ہوں اس لیے رنگ اور برش میرے پاس ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔