کنگ عبدالعزیز اکیڈمی نے ’الشبریۃ‘ کا قصہ جاری کرکے نئی نسل کو تین صدی پرانے ان طواف کھٹولوں سے روشناس کرایا ہے جو اب مکہ مکرمہ کے قدیم ورثے کا حصہ بن چکے ہیں-
اخبار 24 کے مطابق جدید سہولتوں مثلا وہیل چیئر اور خودکار سسٹم سے چلنے والی چیئر سے قبل بھی حج اور عمرے پر ایسے زائرین آیا کرتے تھے جو معذوری کی وجہ سے نہ تو طواف کرسکتے تھے اور نہ ہی سعی- انہیں دو صحت مند افراد کھٹولے پر سوار کرکے خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کروایا کرتے تھے- کھٹولہ لکڑی سے تیار کیا جاتا تھا اس کی شکل چارپائی جیسی ہوتی تھی- کھٹولے سے طواف اور سعی کرانے والوں کو ’الشبریۃ‘ کہا جاتا تھا-
الشبریۃ نام کیوں پڑا؟
الشبریۃ نام پڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کھٹولہ تیار کرتے وقت بالشت (شبر) کے ذریعے کھٹولے کا حدود اربعہ متعین کیا کرتے تھے- پیش نظر یہ بات ہوتی تھی کہ کس سائز کے لوگ اس کھٹولے سے طواف یا سعی کریں گے- کھٹولے کے اطراف سٹینڈ بنایا جاتا تھا تاکہ کھٹولے پر سوار زائر اطمینان سے بیٹھا رہے اور گرنے کے خدشے سے آزاد رہے- اس میں رسے بھی استعمال کیے جاتے تھے-
کنگ عبدالعزیز اکیڈمی نے اس حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ الشبریۃ والے صفا پر ڈیرے ڈالتے تھے اور جبل ابو قبیس کے نیچے بھی بیٹھا کرتے تھے- یہ مخصوص قسم کا لباس پہنتے- جسے دیکھ کر ہی زائرین کو پتہ چل جاتا تھا کہ یہی لوگ انہیں طواف اور سعی کرائیں گے-
تاریخ میں آتا ہے کہ کھٹولے والوں کا ایک امیر بھی ہوتا تھا جو محنتانہ طے کرتا اور کھٹولے سے طواف اور سعی کرانے کے امور طے کیا کرتا تھا- حالیہ ایام کے دوران وہیل چیئرز نے الشبریۃ کی بساط لپیٹ دی ہے اسی لیے خانہ کعبہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کے لیے کھٹولے کہیں نظر نہیں آتے- مسجد الحرام کی انتظٓامیہ نے معذوروں اور مریضوں کے لیے مفت وہیل چیئرز کا بھی انتظام کر دیا ہے جبکہ کرائے پر بھی وہیل چیئرز کے ذریعے طواف اور سعی کا انتظام ہے-