شاہ محمود نے کہا کہ سعودی عرب ہمارا سپورٹر اور خیر خواہ ہے۔( فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کی واضح طور پر تردید کی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کوئی سفارتی تناو ہے اور یہ کہ کسی طرح کشمیر سے متعلق پاکستان کی درخواستوں کی مخالفت کی گئی ہے۔
انہو ں نے کہا کہ’ میں خصوصا سعودی وزیر خارجہ کا مشکور ہوں جنہوں نے او آئی سی کے فورم پر مسئلے پر بات کرتے ہوئے بہترین نکات اٹھائے‘۔
پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویوز میں وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سعودی عرب ہمارا سپورٹر اور خیر خواہ ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ مجھے معلوم ہے کہ سعودی عرب میں کتنے پاکستانی ہیں اور وہ وہاں کام کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی واقف ہوں کہ سعودی حکام نے مشکل صورتحال میں ہماری مدد کی ہے‘۔
شاہ محمود نے اس بات کو دہرایا کہ ’سعودی سرزمین کا دفاع ہمارے لیے ایک مقدس ذمہ داری کی طرح ہے اور ہم اپنی جان بھی دینے کو تیار ہیں تاہم انہیں ہمارے عوام کی خواہش کو ذہن میں رکھنا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اوآئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی بات اس لیے کی کہ اس کا دنیا پر سفارتی اثر پڑے گا‘۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب کے ساتھ کوئی کشیدگی نہیں ہے۔ میں برملا کہہ رہا ہوں ہمارے تعلقات ٹھوس ہیں اور رہیں گے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ’ سعودی عرب سے قریبی تعلقات ہیں۔ اپنوں سے کوئی بات کی ہے۔ اگر انسان تقاضا کرتا ہے تو اپنا سمجھ کرکرتا ہے۔غیروں کے سامنے اپنی بات نہیں کرتا ۔ سعودی عرب اپنا ہے۔ ہمارا محبت کا رشتہ ہے‘۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’میرے بیان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک طبقہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کرپیش کررہا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن اس بیان کو اس تناظر میں نہیں سمجھ رہی۔ سیاسی پوائنٹ سکورننگ کر رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ بیان یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دیرینہ تار یخی تعلقات ہیں۔ بیان یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک سنگین نوعیت کو چھو رہا ہے۔ پچھلے ایک سال میں وہاں حالات بہت تیزی سے بگڑے ہیں ۔ پوری قوم چاہتی ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی آواز اٹھائی جائے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل میں ایک سال کے دوران تین مرتبہ کشمیریوں کی آواز کو اٹھایا ہے۔ اقوام متحدہ کے بعد دوسرا بڑا فورم جو دنیا میں دستیاب ہے وہ او آئی سی کا فورم ہے۔ اس ایشو پراوآئی سی نے ایک واضح موقف اختیارکیا ہے۔ ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔او آئی سی رابطہ گروپ کا بھی ایک واضح ردعمل ہے۔