سعودی عرب اور پاکستان نے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں کشیدگی کم کرنے اور فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے کے لیے کہا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں ایران کے فوجی کمانڈر کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی ’خطرناک صورتحال‘ میں سعودی عرب خطے میں مزید کشیدگی نہیں دیکھنا چاہتا۔
عرب نیوز کے مطابق پیر کو دارالحکومت ریاض میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ ’ہم اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ خطے میں کشیدگی مزید نہ بڑھے۔ یقینی طور پر یہ بہت خطرناک لمحات ہیں اور ہمیں خطے اور عالمی سکیورٹی کو درپیش مشکلات کے بارے میں ہوشیار رہنا ہوگا۔‘
مزید پڑھیں
-
شاہ سلمان کا عراقی صدر سے رابطہNode ID: 451456
-
’امن خراب کرنے والے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے‘Node ID: 451511
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا ’ہمیں امید ہے کہ تمام فریق ایسے اقدامات کریں گے جن سے مزید کشیدگی اور اشتعال انگیزی سے بچا جا سکے۔‘
دریں اثنا پیر کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال تشویشناک ہے، فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ ’پاکستان کسی یک طرفہ کارروائی کی تائید نہیں کرے گا، ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، اس کا اثر خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔ ایران اپنی روایتی سمجھداری سے کام لیتے ہوئے حارحیت سے گریز کرے۔
’خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس کے بھیانک اثرات برآمد ہوں گے، ہم خطے کا حصہ ہیں اگر آگ لگی تو اس کی تپش سے ہم بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔‘
انہوں نے اقوام متحدہ سے صورت حال کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی کی۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ’امریکہ کی جانب سے تین نکات سامنے آئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ قدم جنگ کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا، اب ہم مذاکرات کے لیے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تیار ہیں، امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایران کی جانب ردعمل آیا تو جوابی ردعمل مزید سنگین ہو گا‘
شاہ محمود قریشی نے خطے کو درپیش خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عراق اور شام کے عدم استحکام کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ ’یہاں تک کہ اس کے اثرات افغانستان کے امن عمل پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔‘
