Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور پاکستان کی خطے میں کشیدگی کم کرنے کی اپیل

سعودی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ تمام فریق کشیدگی اور اشتعال انگیزی سے بچنے کے اقدامات کریں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
سعودی عرب اور پاکستان نے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں کشیدگی کم کرنے اور فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے کے لیے کہا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں ایران کے فوجی کمانڈر کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی ’خطرناک صورتحال‘ میں سعودی عرب خطے میں مزید کشیدگی نہیں دیکھنا چاہتا۔
عرب نیوز کے مطابق پیر کو دارالحکومت ریاض میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ ’ہم اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ خطے میں کشیدگی مزید نہ بڑھے۔ یقینی طور پر یہ بہت خطرناک لمحات ہیں اور ہمیں خطے اور عالمی سکیورٹی کو درپیش مشکلات کے بارے میں ہوشیار رہنا ہوگا۔‘

 

سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا ’ہمیں امید ہے کہ تمام فریق ایسے اقدامات کریں گے جن سے مزید کشیدگی اور اشتعال انگیزی سے بچا جا سکے۔‘
دریں اثنا پیر کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال تشویشناک ہے، فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ ’پاکستان کسی یک طرفہ کارروائی کی تائید نہیں کرے گا، ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، اس کا اثر خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آگ بھڑکانے کی نہ ہماری پالیسی تھی نہ ہے اور نہ کبھی اس کا حصہ بنیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔ ایران اپنی روایتی سمجھداری سے کام لیتے ہوئے حارحیت سے گریز کرے۔
’خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس کے بھیانک اثرات برآمد ہوں گے، ہم خطے کا حصہ ہیں اگر آگ لگی تو اس کی تپش سے ہم بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔‘
انہوں نے اقوام متحدہ سے صورت حال کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی کی۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ’امریکہ کی جانب سے تین نکات سامنے آئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ قدم جنگ کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا، اب ہم مذاکرات کے لیے اور  کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تیار ہیں، امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایران کی جانب ردعمل آیا تو جوابی ردعمل مزید سنگین ہو گا‘
شاہ محمود قریشی نے خطے کو درپیش خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عراق اور شام کے عدم استحکام کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ ’یہاں تک کہ اس کے اثرات افغانستان کے امن عمل پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔‘

 امریکی صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے ردعمل ظاہر کیا تو جواب میں زیادہ بڑی کارروائی کریں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق ’اس حملے سے پیدا ہونے والی صورت حال میں یمن کے حوثی سعودی عرب پر مزید حملے کر سکتے ہیں۔ آبنائے ہرمز کی بندش ہو سکتی ہے جس سے تیل کی ترسیل بھی متاثر ہو سکتی ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آگ بھڑکانے کی نہ ہماری پالیسی تھی نہ ہے اور نہ کبھی اس کا حصہ بنیں گے۔
ادھر وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ مریکی ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی حکومت اسلامی کانفرنس تنظیم ( او آئی سی) کے اجلاس سمیت سیاسی اور سفارتی آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں سعودی سفیر نواف بن سعد المالکی کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور سلامتی کا خواہاں ہے۔
 ’ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے اور تمام اسلامی ممالک کے تحت اور اس خطے کے ممالک کے ساتھ بہتر اور برادرانہ تعلقات رکھنے کی کوشش کی ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ  ایسا کردار ادا کرے کہ خطے کے ممالک کی مشکلات کم ہو جائیں اور امن کا راستہ حاصل ہو جائے۔پاکستان اب بھی ان کوششوں پر عمل پیرا ہے۔‘
خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی جانب سے او آئی سی کے اجلاس بلانے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور تمام سیاسی اور سفارتی زرائع جن سے مسئلے کے حل کی راہ نکل سکتی ہے ان پر پاکستان کی حکومت غور کر رہی ہے۔

شیئر: