اڑھائی سال پہلے یبسیں منگوا لی گئی تھیں اور دو سال میں ان کی 'وارنٹی' ختم ہونی تھی (فوٹو: سوشل میڈیا)
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جید کالم نگار اپنے کالموں میں کوئی طویل نظم یا غزل نقل کرکے کالم کا پیٹ بھر دیتے ہیں۔
اس سے بظاہر تو قارئین کو اپنےعلمی اور شعری بصیرت سے مرعوب کرنا ہوتا ہے مگر بباطن ایسے کالموں کے پیچھے 'کہولت' اور 'تساہل' درپیش ہوتا ہے۔ آج کے کالم میں، میں بھی ایک طویل نظم نقل کرنے کی جسارت کر رہا ہوں مگر اس کی توجیہ نہ اولذکر ہے نہ آخرالذکر مقصود ہے۔
تحریر میں مزاح کیسے تخلیق ہوتا ہے۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ سوال ہے۔ مزاحیہ نثر کے امام 'یوسفی' سے رجوع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مزاح تخلیق کرنے کے حیلے بہت متنوع ہیں۔
کبھی ایک لفظ کی تکرار قہقہہ بن جاتی ہے۔ کبھی کسی لفظ سے گریز تبسم کا سبب بنتا ہے۔
کبھی ابہام سے مزاح تخلیق ہوتا ہے اور کبھی سیدھی سچی بات کہنے سے لطف آتا ہے۔ فکاہیہ ادب کو پڑھیں تو مزاح کی ایک نادر قبیل ایسی بھی نظر آتی ہے جس میں دو مختلف باتوں میں ربط قائم کرنے سے مزاح پیدا ہوتا ہے۔ بے ربطی میں ربط تلاش کرنے سے بھی بسا اوقات قہقہہ پڑتا ہے۔
اردو فکاہیہ شاعری میں دو نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنے فن کو بام کمال تک پہنچا دیا مگر بہت معروف نہ ہو سکے۔ ان میں سے ایک نام سید محمد جعفری کا ہے اور دوسرا نذیر احمد شیخ کا۔
سید محمد جعفری کی زیادہ تر شاعری زمانی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ موضوعات مفقود ہوتے جا رہے ہیں مگر نذیر احمد شیخ ایسے مکمل مزاح نگار تھے کہ ہر دور میں ان کا تبسم خیز شعر مہکتا ہے۔
پشاور بی آر ٹی سروس پر پشتو میں مزاحیہ شاعری بھی کی گئی اور گیت بھی لکھےگئے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
ان کا مجموعہ "حرف بشاش" ایک خاص چیز ہے۔ واہ سے تعلق رکھنے والے اس شرمیلے شاعر کو نہ مشاعرہ پڑھنے کا شوق تھا نہ داد کی خواہش تھی۔
پٹیالہ سے ہجرت کرکے آنے والے اس شاعر نے پہلے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی اور پھر "واہ آرڈیننس فیکٹری " میں عمر گزار دی۔
واہ کینٹ سے ہی تعلق رکھنے والے ہمارے دوست "محمد عارف " کے بقول جنہوں نے نذیر احمد شیخ پر بہت محنت سے تحقیق کی کہ 'نذیر احمد شیخ سچی سادگی کا پیکر تھا اور اپنے سوا کسی کا دشمن نہیں تھا۔'
ادھر پشاور بی آر ٹی کا افتتاح کیا ہوا شکایات کے انبار لگ گئے۔ اس بی آر ٹی پر کرپشن کے بہت سے سیکنڈل بنے۔ اس پراجیکٹ کے لیے دو سو بیس بسوں نے آنا تھا مگر ایک سو سینتیس ابھی دستیاب ہیں جن میں سے 90 چل رہی ہیں۔
اڑھائی سال پہلے یہ بسیں منگوا لی گئی تھیں اور دو سال میں ان کی "وارنٹی " ختم ہونی تھی۔ اب یہ نئے رنگ و روغن تلے خستہ حال بسیں بغیر کسی" وارنٹی "چل رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہم نے دیکھا کہ افتتاح کے بعد اس بی آر ٹی میں کہیں مسافر "ٹھسا ٹھس " بھرے ہوئے ہیں۔ کہیں " ٹکٹ " کی مشین خراب ہوگئی ہے۔
نئے رنگ و روغن تلے خستہ حال بسیں بغیر کسی 'وارنٹی' چل رہی ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
کہیں دو سال سے دھوپ اور بارش میں کھڑی بس اتنی بوسیدہ ہو چکی ہے کہ پہلے دن ہی اسے کرین سے کھنچوا کر ٹریک سے اتارا جا رہا ہے۔ کہیں مسافر خانوں میں 'منشیات فروشوں' نے اڈے بنا لیے ہیں۔
ابتدا میں کچھ ذکر فکاہیہ شاعر نذیر احمد شیخ کا آیا ۔ یہ بات بھی ہوئی کہ شاعر وہی دوام پاتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ جس کا فن زندہ رہے۔ زیر نظر پیش ہے نذیر احمد شیخ کی ایک بے مثال نظم 'زمیندار بس'۔ یہ نظم انہوں نے دہائیوں پہلے کسی 'زمیندار بستی کی بس' پر لکھی تھی۔
اس کو نقل کرنے کی یہاں ضرورت اس لیے پیش آئی کہ قارئین اس نظم کے ایک ایک شعر کو غور سے پڑھیں، آپ کو ہر مصرعے میں جیتی جاگتی، ہانپتی کانپتی بی آر ٹی پشاور نظر آئے گی۔
نظم پڑھتے یاد رہے کہ بعض اوقات مزاح دو بے ربط چیزوں میں ربط تلاش کرنے سے بھی پیدا ہوتا ہے۔