Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترک نوجوانوں میں رجب طیب اردوان کی حمایت میں کمی

اب تک ترکی میں چار لاکھ سے زائد ویب سائٹس کو بلاک کیا جا چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی ادارے کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق ترکی میں صدر رجب طیب اردوان کی کم ہوتی ہوئی حمایت ملک سے باہر خود ساختہ طاقتور شخص کے کسی جارحانہ اقدام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں قائم ادارے سینٹر فار امریکن پراگریس (سی اے پی) نے ترک صدر اردوان کی دائیں بازو کے قوم پرست ووٹرز خصوصاً نوجوان قدامت پسندوں میں ختم ہوتی ہوئی حمایت کی نشاندہی کی ہے۔
سی اے پی کی جانب سے ہونے والے ملک گیر سروے کے مطابق حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے صدر رجب طیب اردوان سے وفادار ووٹرز کی حمایت 10 فیصد کم ہو کر 66 فیصد پر آ گئی ہے۔  

 

عرب نیوز نے سروے کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے میڈیا کا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوششوں کے اُلٹ نتائج سامنے آئے ہیں اور نوجوان نسل نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔  
یونیورسٹیوں کے امتحانات سے ایک روز قبل اردوان نے یوٹیوب پر نوجوان ترکوں سے ملاقات کی ویڈیو اپلوڈ کی لیکن اس پر فوری طور پر 3 لاکھ ڈس لائکس آ گئے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے ترک لیڈر برسوں میں پہلی مرتبہ ملک میں اپنی حمایت کھو رہے ہیں اور یہ انتباہ ہوتا ہے کہ اس کا نتیجہ بیرون ملک مزید جارحانہ تحریکوں کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے اور علاقائی کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔
سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رجب طیب اردوان کے اہم حلقے ان کی حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہیں اور سرد مہری رکھتے ہیں۔
آن لائن نیوز سے واقفیت رکھنے والی نسل بھی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے کی کوششوں پر ناخوش ہے۔  
ایک اندازے کے مطابق اب تک ترکی میں چار لاکھ سے زائد ویب سائٹس کو بلاک کیا جا چکا ہے۔
 

سیاسی ماہرین کے مطابق آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا مقصد قدامت پسند ووٹرز کو راغب کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سی اے پی کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں ایسے افراد کی تعداد 70 فیصد تھی جو سمجھتے ہیں کہ میڈیا 'جانبدار' اور 'ناقابل اعتبار' ہے، 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 77 فیصد ہوگئی، ایسے سوچنے والوں میں خاص طور پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ووٹرز کی تعداد بڑھی ہے۔  
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ پارلیمانی اور 2023 کے صدارتی انتخابات میں مزید 50 لاکھ نوجوان ووٹرز ووٹ ڈالنے کے اہل ہو جائیں گے۔
'ان انتخابات میں 18 سے 29 برس کی عمر کے نوجوان ووٹنگ کا سب سے بڑا بلاک اور مقامی سیاست کا محور بن گئے ہیں۔
نیشنل سکیورٹی اینڈ انٹرنیشنل پالیسی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میکس ہوف مین کا کہنا ہے کہ اردوان کی حمایت میں کمی کی ایک وجہ ملک میں معاشی جمود بھی ہے۔  

ترکی کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی ہے (فوٹو: روئٹرز)

'نوجوان ترکوں کو روزگار کی شدید کمی کا سامنا ہے اور ملک کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔'
 انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس 25 لاکھ افراد کی ملازمتیں چلی گئیں، ترک سینٹرل بینک زرمبادلہ کے ذخائر کے ذریعے  لیرا کی قدر مستحکم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کر رہا ہے۔
'شامی مہاجرین کی بڑے شہروں میں موجودگی سے بھی مقامی لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے متنازع فیصلے کا مقصد اپنی حمایت میں کمی کو روکنا  اور قدامت پسند مذہبی ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنا ہے۔

شیئر: