امریکی ادارے کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق ترکی میں صدر رجب طیب اردوان کی کم ہوتی ہوئی حمایت ملک سے باہر خود ساختہ طاقتور شخص کے کسی جارحانہ اقدام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں قائم ادارے سینٹر فار امریکن پراگریس (سی اے پی) نے ترک صدر اردوان کی دائیں بازو کے قوم پرست ووٹرز خصوصاً نوجوان قدامت پسندوں میں ختم ہوتی ہوئی حمایت کی نشاندہی کی ہے۔
سی اے پی کی جانب سے ہونے والے ملک گیر سروے کے مطابق حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے صدر رجب طیب اردوان سے وفادار ووٹرز کی حمایت 10 فیصد کم ہو کر 66 فیصد پر آ گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
اردوان کی مہم جوئی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟Node ID: 486101
-
’آیا صوفیہ کا فیصلہ ’طاقت اور سیاست‘ کی بُنیاد پر کیا گیا‘Node ID: 494596
-
شام میں امریکی تیل معاہدے پر ترک صدر طیب اردوان خاموشNode ID: 496176
عرب نیوز نے سروے کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے میڈیا کا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوششوں کے اُلٹ نتائج سامنے آئے ہیں اور نوجوان نسل نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
یونیورسٹیوں کے امتحانات سے ایک روز قبل اردوان نے یوٹیوب پر نوجوان ترکوں سے ملاقات کی ویڈیو اپلوڈ کی لیکن اس پر فوری طور پر 3 لاکھ ڈس لائکس آ گئے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے ترک لیڈر برسوں میں پہلی مرتبہ ملک میں اپنی حمایت کھو رہے ہیں اور یہ انتباہ ہوتا ہے کہ اس کا نتیجہ بیرون ملک مزید جارحانہ تحریکوں کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے اور علاقائی کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔
سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رجب طیب اردوان کے اہم حلقے ان کی حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہیں اور سرد مہری رکھتے ہیں۔
آن لائن نیوز سے واقفیت رکھنے والی نسل بھی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے کی کوششوں پر ناخوش ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک ترکی میں چار لاکھ سے زائد ویب سائٹس کو بلاک کیا جا چکا ہے۔

سی اے پی کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں ایسے افراد کی تعداد 70 فیصد تھی جو سمجھتے ہیں کہ میڈیا 'جانبدار' اور 'ناقابل اعتبار' ہے، 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 77 فیصد ہوگئی، ایسے سوچنے والوں میں خاص طور پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ووٹرز کی تعداد بڑھی ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ پارلیمانی اور 2023 کے صدارتی انتخابات میں مزید 50 لاکھ نوجوان ووٹرز ووٹ ڈالنے کے اہل ہو جائیں گے۔
'ان انتخابات میں 18 سے 29 برس کی عمر کے نوجوان ووٹنگ کا سب سے بڑا بلاک اور مقامی سیاست کا محور بن گئے ہیں۔
نیشنل سکیورٹی اینڈ انٹرنیشنل پالیسی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میکس ہوف مین کا کہنا ہے کہ اردوان کی حمایت میں کمی کی ایک وجہ ملک میں معاشی جمود بھی ہے۔
