بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ترکی کا موغادیشو میں فوجی اڈہ ہے۔ یہ ترک سرحدوں سے بہت دور ہے۔ ترکی کا سب سے بڑا سفارت خانہ بھی صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ہی ہے۔ لیبیا اور صومالیہ میں قدرے مشترک ایک بات ہے کہ دونوں ممالک جنگوں کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔
چند ماہ قبل ترکی نے سوڈان کے معروف جزیرے سواکن میں قدم جمانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی وہاں اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اگر عمر البشیر کے اقتدار کے تانے بانے نہ بکھرتے اور سوڈان کے نئے قائدین ترکی کے ساتھ اپنے فوجی معاہدے منسوخ نہ کرتے تو سواکن میں ترکی کا فوجی اڈہ قائم ہوچکا ہوتا۔
مزید پڑھیں
-
اردوان کا اصل حریف کون ہے؟
Node ID: 449961 -
بشار الاسد اور ان کی اہلیہ پر سخت امریکی پابندیاں
Node ID: 486081
سوال یہ ہے کہ خطے کے نقشے پر ترکی کے یہ سرخ نشان آیا اس کے توسیع پسندانہ منصوبے کا حصہ ہیں۔ آیا یہ سوچی سمجھی سیاست کی علامتیں ہیں یا یہ خود پسند شخصیت کا ردعمل ہیں؟
شام میں جنگ کے ابتدائی برسوں کے دوران رجب طیب اردوان افواج کے ذریعے سرحدیں عبور کرنے میں تردد کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آج ان کی فوجیں شام میں لشکر انداز ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی، روس اور بشار الاسد کی افواج کے مقابلے میں بیشتر معرکے ہار چکا ہے۔
امریکہ کے حوالے سے بھی ترکی کا یہی حال ہے۔ ترک حکومت نے اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے شام میں فوجی کارروائی کر کے دونوں ملکوں کی سرحدوں کے درمیان محفوظ علاقہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی اب اس علاقے کا دائرہ بھی محدود ہوگیا ہے۔
مذکورہ ناکامیوں کے تناظر میں صدر رجب طیب اردوان دگرگوں معاشی حالات سے افسردہ ترک عوام کو لیبیا میں فوجی فتوحات کی خوش خبریاں دینا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے خبروں کا ایک طوفان کھڑا کیا۔ ترک عوام کو فتوحات کی خوش خبریاں سنائیں۔

نمایاں ترین خوش خبری یہ تھی کہ ترکی نے لیبیا کے ساتھ تیل معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں اور ترکی بحیرہ روم میں ان مقامات پر جنہیں انہوں نے سمندری سرحدوں کے طور پر مرتسم کیا ہے تیل کی تلاش کا عزم ظاہر کیا حالانکہ یونان کو اس پر اعتراضات بھی ہو رہے ہیں۔ اردوان نے تیل کے ذخائر دریافت کرنے کی اطلاعات سنانے میں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔
مذکورہ خوش کن خبریں ترک عوام کا حوصلہ بلند کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ ترک عوام دو برس سے اقتصادی صدموں سے دوچار ہو رہے ہیں۔
خطے میں ترکی کی فوجی مہم جوئیوں کے نقصانات کومعمولی نہیں قرار دیا جا سکتا- ترکی کی بیشتر فوجی مہم جوئیوں کی فنڈنگ قطر کر رہا ہے جو علاقائی طاقت کے بل پر راج کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے-
ترک صدر خطے میں توسیع پسندی کے حوالے سے ایرانیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ایرانی بھی امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد یلغار کرنے لگے تھے اور شام، عراق اور یمن میں پھیل گئے تھے۔

ایران کی طرح ترکی بھی مبینہ طور پر لیبیا میں جنگ کے لیے غیرملکی ملیشیاؤں کو استعمال کر رہا ہے۔ یمن میں بھی ترک مداخلت کی خبریں آنے لگی ہیں۔ اس سے قبل ترکی شامی کردوں کے خلاف شامی ملیشیاؤں کو استعمال کر چکا ہے۔
فوجی مہم جوئیوں سے یہ پتا نہیں چلتا رہا ہے کہ رجب طیب اردوان کی پالیسی کیا ہے اور اس پالیسی کا متوقع نتیجہ کیا برآمد ہو سکتا ہے۔
دسمبر 2019 کے دوران ملائشیا نے امت مسلمہ کے احوال و کوائف پر غور و خوض کے نام سے اسلامی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ اس کا دائرہ اردوان، ایران اور انڈونیشیا کے سربراہوں اور امیر قطر تک محدود رہا تھا۔ اردوان نے ان کے سامنے امت کے رہنما کے طور پر پیش کرنے اور اس سربراہ کانفرنس کو اسلامی تعاون تنظیم کے نعم البدل کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ کانفرنس ناکام رہی۔ ملائشیا نے بات بنانے کی کوشش کی کہ ترکوں کے بیانات ان کے نکتہ نظر کے ترجمان نہیں۔ ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد برطرف کر دیے گئے اور اس مہینے اپنی پارٹی سے بھی بے دخل کر دیے گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ اردوان ترکی کو ایران جیسی بڑی علاقائی طاقت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ غالبا وہ اس نکتہ نظر کے تحت ایران کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ایرانی امریکی ناکہ بندی کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہو گئے ہیں-
