Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرپشن، کرپشن، کرپشن

ملک سے کرپشن کا خاتمہ پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
میرے پاس کوئی حتمی اعداد و شمار تو نہیں لیکن گمان غالب ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں جو لفظ پاکستان میں سب سے زیادہ بولا گیا ہے وہ ہے ’کرپشن‘۔ خصوصی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے اس لفظ کے اثرات اب عمومی ہوگئے ہیں۔ اب اس سارے سماج کی آنکھوں پر کرپشن والی عینک لگ گئی ہے۔ یہ معاشرہ اب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
ایک وہ طبقہ ہے جس پر کرپشن کا الزام لگ رہا ہے اور دوسرے لوگ وہ ہیں جو کرپشن کے الزام لگا رہے ہیں۔ کرپشن کے اس ہنگام کے سماجی اثرات اتنے زہر آلود ہوں گے یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا ہو گا۔  
کرپشن کا الزام لگانے کے لیے ہمیں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی کسی ٹاک شو میں چند بے معنی کاغذ لہرائے گا اور کسی پر کرپشن کا الزام لگا دے گا۔ کوئی سیاستدان تقریر کرے گا تو بنا کسی ثبوت کے کرپشن کا نعرہ لگا دے گا۔ سوشل میڈیا پر اچانک ایک مبہم سی ویڈیو منظر عام پر آئے گی اور کرپشن کی تہمت لگ جائے گی۔ کوئی یوٹیوب پر الزام لگائے گا اور کوئی اخبار میں خبر دے دے گا۔
بس کرپشن کے الزام کے لیے اتنا ہی ثبوت کافی ہے۔ تحقیق کی ہمیں عادت نہیں۔ لیکن کہانیاں سننے کے ہم شائق ہیں۔ ایک زبان سے دوسری زبان تک اس الزام کے منتقل ہونے والی کرپشن میں کئی ارب روپے یا کئی ہزار گنا اضافہ ممکن  ہے۔ حکومتی سیاستدان تو کھربوں سے کم کرپشن کی کوڑی نہیں لاتے۔  
اب ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں سب ایک دوسرے کو کرپشن کا مجرم جانتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کو نیب کے قانون کے غلط استعمال پر اعتراض ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اب سائیکل والا موٹر سائیکل والے کو کرپٹ جانتا ہے۔ موٹر سائیکل والا کھٹارا گاڑی والے کی کرپشن پر تف بھیجتا ہے۔ کھٹارا گاڑی والا برینڈ نیو گاڑی والے پر دل ہی دل میں کرپشن کے الزامات لگاتا ہے۔ لینڈ کروزر والا اس کو کرپٹ سمجھتا ہے کہ جس کے پاس اپنا جہاز ہے۔ جس کے پاس اپنا جہاز ہے وہ شوگر مل والے کو کرپٹ مانتا ہے۔ ایک شوگر مل والا بیس شوگر ملوں کے مالک پر کرپشن کے الزام دھرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب ہم سب ایک دوسرے کو کرپٹ سمجھتے ہیں۔  
ہم ترقیاتی منصوبوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اب ہمیں ہر سڑک کے ٹھیکے میں کرپشن نظر آتی ہے۔ ہر پلازے کی تعمیر کی پیچھے لاکھوں ڈالروں کی خرد برد نظر آتی ہے۔ ہر مل میں فراڈ نظر آتا ہے۔ ہر فیکٹری میں کرپشن کی ’جگاڑ‘ نظر آتی ہے۔ ہر منصوبہ ہمیں کرپشن سے آلودہ نظر آتا ہے۔ ہم سرکار کے ہر محکمے کو کرپٹ سمجھتے ہیں۔
ہم اس ملک کی ترقی نہ کرنے کا سبب بھی کرپشن کو سمجھتے ہیں۔ ہم سجھتے ہیں کسی کی بھی بڑی کوٹھی، بڑا بنگلہ، شاندار گاڑی یا اچھا کاروبار کرپشن کےسوا ممکن ہی نہیں ہے۔  کرپشن ہماری سوچ میں اس طرح بس گئی ہے کہ کوئی مکالمہ یا کوئی بحث اس کے سوا ممکن ہی نہیں۔  
موجودہ میڈیا نے جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے۔ پانچ سالوں میں روز نامعلوم کرپشن کے خلاف ہزاروں پروگرام کیے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر ’نیب‘ نے پوری کر دی۔ اپوزیشن کا جو رہنما نظر آیا اس پر اربوں کھربوں کا الزام لگا کر دھر لیا۔ اس محکمے کا اعجاز یہ ہے کہ ثبوت بعد میں تلاش کیا جاتا ہے، مقدمہ بعد میں درج کیا جاتا ہے، لیکن  میڈیا پر کرپشن کا الزام لگا کر گرفتاری پہلے کر لی جاتی ہے۔ 

 اکثر سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات عائد کر کے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

دیانتداری کے پیمانے پر اب کوئی پورا نہیں اترتا۔ اب ہمیں فقیروں کی حجروں میں، امیروں کی محلوں میں، مزدور انجمنوں میں، صحافی تنظیموں میں، غریب کی جھگی میں اور فقیروں کے جھنڈ میں بھی کرپشن نظر آتی ہے۔
اب ہمیں صحافیوں کی خبر میں، وزراء کی نظر میں، آمروں کی قبر میں، غریب کے صبر میں حتیٰ کہ برسات میں، ابر میں کرپشن ہی کرپشن نظر آتی ہے۔
چندے کی صندوقچیاں ہمیں کرپشن آلود لگتی ہیں۔ زیادہ خیرات کرنے والوں کو بھی ہم یہی سمجھتے ہیں یہ اپنی کرپشن کی کمائی کی خیرات سے تطہیر کر رہے ہیں۔
ہمیں سکولوں میں، کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں، سارے تعلیمی نظام میں اب کرپشن ہی کرپشن نظر آتی ہے۔ ہم اول آنے والے طالبعلم کی ذہانت کو بھی کرپشن کا الزام دے دیتے ہیں۔ ہمیں امریکہ میں پڑھنے والے ہر پاکستانی کی تعیلم میں کرپشن نظر آتی ہے۔ ہم افسر کو، ماتحت کو، چوکیدار کو، سیکیورٹی گارڈ کو، بینک کے کیشئیر، مل کے مزدور کو کسی نہ کسی سطح پر کرپٹ سجھتے ہیں۔ ہماری آنکھوں پر ایک ایسی پٹی بندھ گئی ہے کہ جس میں ہمیں کرپشن کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔  
ہم نے اس سماج میں یہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ کوئی شخص کرپشن کیے بغیر بھی متمول ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص حلال کاروبار سے بھی امیر ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص بنا کرپشن کے بھی مل مالک ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص کرپشن کا ٹانکا لگائے بغیر بھی فیکٹری لگا سکتا ہے۔ کوئی شخص اپنے بچوں کو بغیر کرپشن کے بھی اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوا سکتا ہے۔  
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کرپشن کا سبق زبانی یاد ہو گیا ہے۔ اس لفظ کا زہر ہماری سوچ کے ذریعے ہماری رگوں میں منتقل ہو چکا ہے۔ اب ہمارا پرکھ کا واحد پیمانہ کرپشن بن چکا ہے۔ اس پیمانے سے اب مفر ممکن نہیں ہے۔  

 ’کرپشن کے نعرے نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔‘ فوٹو اے ایف پی

جن مقاصد کے لیے ہمیں یہ سبق پڑھایا گیا ان کی تکمیل تو کب کی ہو گئی ہے مگر ہم اب کرپشن والے سبق پر مصر ہو چکے ہیں۔ اب لوگوں کو کسی اور دھیان میں نہیں لگایا جا سکتا۔  
سرکار! اب دوش نہ دیجیے۔ اس لیے کہ ہمیں دھائیوں یہی سبق پڑھایا، سکھایا، بتایا اور سنایا گیا ہے۔
اب اگر لوگ پوچھیں کہ کرتار پور کے گردوارے کے گنبد کیوں چند دن میں ناقص تعمیر کی وجہ سے زمیں بوس ہو گئے تو آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ تعمیرات کو کرپشن کے پیمانے پر پرکھنے کا حوصلہ آپ نے ہمیں عطا کیا۔ اب اگر لوگ کسی کے اثاثہ جات کے بارے میں تین روز تک ٹرینڈ چلائیں تو یہ بھی اسی تعلیم کا فیض ہے۔ اب اگر لوگ سفارت خانہ بیچ دینے کی خبر پر کرپشن کا غلغلہ مچا دیں تو سرکار آپ ناگواری کا اظہار مت کریں۔ یہ سبق ہمیں آپ نے پڑھایا تھا۔ یہ صفحہ تو ہماری سوچ کے سلیبس میں آپ نے شامل کیا تھا۔  
راحت اندوری کے شعر پر بات ختم کرتے ہیں:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں 
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے 

شیئر: