اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ہمراہ جب 11 بجے عدالت پہنچیں تو کمرہ عدالت لیگی کارکنوں اور وکلا سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ کارکنوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان دھکم پیل کا سلسلہ جاری تھا۔
مریم نواز نے لیگی کارکنوں سے درخواست کی کہ عدالت کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے اور کمرہ عدالت خالی کر دیں۔
منگل کے روز سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں صحافیوں نے ججز کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مریم نواز سے کچھ چُلبُلے اور کچھ سنجیدہ سوالات کیے۔
مزید پڑھیں
-
نواز کی میڈیکل رپورٹس اصلی یا جعلی؟Node ID: 501331
-
'نواز شریف کو جانے دینا ہماری غلطی تھی'Node ID: 501441
-
’ڈاکٹرز نے اجازت دی تو پہلی فلائٹ سے پاکستان آؤں گا‘Node ID: 502136
مریم نواز سے جب آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے شہباز شریف کے ساتھ مبینہ اختلاف کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ 'مسلم لیگ ن نواز شریف کی ہی ہدایات پر عمل کرے گی اور میرا نہیں خیال کہ نواز شریف اے پی سی میں جانے سے روکیں گے اور نہ ہی ان کو روکنا چاہیے۔
صحافی مطیع اللہ جان کو دیکھ کر مریم نواز نے ان کا حال احوال پوچھا تو انہوں نے موقع کی غنیمت جانتے ہوئے سوال کیا کہ 'آپ کا فیورٹ پیزا کونسا ہے؟
جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
آدھے گھنٹے کا وقت گزرنے کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما عطاء اللہ تارڑ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سے ملاقات کے بعد ان کی نشست کے پیچھے براجمان ہو گئے۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت میں پہنچ گئے تو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اپنی نشست سے اٹھ کر ان سے حال احوال دریافت کیا۔
ساڑھے گیارہ بجے کے بعد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور امیر مقام نے یکے بعد دیگرے مریم نواز کے سامنے "حاضری" لگائی اور رکاوٹوں کے باعث تاخیر سے آنے پر معذرت کی۔

دس منٹ بعد ججز کمرہ عدالت میں پہنچے تو عدالت میں موجود ہجوم کو دیکھ کر بینچ میں شامل جسٹس عامر فاروق نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر کورونا پھیل گیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟ ہمیں تھوڑی احتیاط کرنی چاہیے۔
جسٹس عامر فاروق نے بھی انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کے بارے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 'میں خود مشکل سے آج عدالت پہنچا ہوں، ہمارے سٹاف کو مشکل ہوئی ہے ایسا نہیں ہونا چاہے۔ عام آدمی کو دقت نہیں ہونی چاہیے میں اس پر انتظامیہ سے بات کروں گا۔
سماعت کا آغاز ہوا تو العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل میں نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر عدالت نے سابق وزیراعظم کی ضمانت کا سٹیٹس پوچھا۔
اس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ضمانتی بانڈز کے تحت دی جانے والی ضمانت کی مدت ختم ہو چکی ہے اور پنجاب حکومت نے بھی ان کی توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے لیکن نواز شریف کی طبیعت ایسی نہیں کہ وہ سفر کر سکیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف ہسپتال میں داخل ہیں؟ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ نہیں وہ ہسپتال میں داخل نہیں ہیں بلکہ کورونا کے باعث ان کے علاج میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اس دوران عطا اللہ تارڑ نواز شریف کی قانونی ٹیم سے سرگوشی بھی کرتے نظر آئے اور ایک موقع پر انہوں نے خواجہ حارث کو پرچی پر کچھ لکھ کر دینے کی کوشش بھی کی۔
عدالتی کارروائی جاری تھی کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کبھی اپنی نشست پر کچھ دیر کھڑے ہوتے تو پھر بیٹھ جاتے۔
خواجہ حارث اور نیب ٹیم کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'نواز شریف کو خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے سامنے ایسی کوئی چیز نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ سفر نہیں کر سکتے۔
