پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف سے متعلق خبریں ایک بار پھر گرم ہیں۔ اور اب کی بار یہ گرما گرمی کہیں اور سے نہیں حکم راں جماعت تحریک انصاف کی اپنی صفوں سے شروع ہوئی ہے۔
وفاقی حکومت کے وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک مقامی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بلڈ ٹیسٹ رپورٹس پر سوالات اٹھا دیے اور اسی حوالے سے انہوں نے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
’ڈاکٹر یاسمین راشد گائنی کی ڈاکٹر ہیں جبکہ نواز شریف کی بیماری گائنی سے متعلق نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کو بھی تحقیقات میں شامل کیا جانا چاہیئے‘ یہ تھے وہ الفاظ جن کے بعد اس موضوع پر کھل کے بات ہونا شروع ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
اچھا سیاستدان ایسے نہیں بنا جا سکتا، سہیل وڑائچ کا کالمNode ID: 423626
-
میری ذات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیب آفس بلایا گیا: مریم نوازNode ID: 498046
-
نواز شریف اِن ایکشنNode ID: 500571
ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی ایک ٹی وی سکرین کا سہارا لیتے ہوئے فواد چوہدری کو جواب دیا کہ ’فواد چوہدری ڈاکٹر نہیں ہیں وہ رپورٹس کو نہیں سمجھ سکیں گے کیونکہ یہ ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ میں نے صوبائی وزیر صحت ہونے کے حوالے سے ان رپورٹس کا جائزہ لیا جو میرے سامنے پیش ہوئیں۔ اور انہی رپورٹس پر تمام ڈاکٹروں نے اپنی آرا دیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سو دفعہ ان رپورٹس کی چھان بین کروائی جائے وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور تمام ریکارڈ بھی محفوظ ہے۔
دیکھا جائے تو اس وقت یہ معاملہ دو سمتوں میں زیر بحث ہے۔ ایک نواز شریف کو واپس لانا اور دوسرا کسی طریقے سے یہ ثابت کرنا کہ سابق وزیر اعظم کی طبی رپورٹس میں کسی قسم کا ردوبدل کیا گیا جس سے ان کی صحت انتہائی خطرناک حد تک گرتی ہوئی دکھائی دی جس کی بنا پر انہیں باہر جانے کی اجازت ملی۔
رپورٹس اصلی تھیں یا جعلی؟
اردو نیوز نے اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہو سکتی ہے کہ طبی رپورٹس کو بدلا گیا۔
اس حوالے سے خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی جن کو خصوصی طور پر کراچی سے لاہور لایا گیا تھا اور انہوں نے میڈیکل بورڈ سے مل کر سابق وزیر اعظم کی نگہداشت کی تھی نے اردو نیوز کو بتایا ’ایک بات تو آپ کلئیر رکھیں کہ میں نواز شریف کا معالج نہیں تھا بلکہ مجھے ایک مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ میں اس موضوع پر بات کرنے سے بھی قاصر ہوں کہ اس وقت جو سیاسی معاملات چل رہے ہیں اس کا بیک گراونڈ کیا ہے۔ میں نے اپنی دیانت داری سے وہ کام کیا جو مجھے سونپا گیا تھا اس سے زیادہ میں اس پر بات نہیں کروں گا۔‘

ڈاکٹر طاہر شمسی پاکستان کے ان چند معالجین میں سے ایک ہیں جو پیتھالوجی کے شعبے میں بات کرنے میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔
تاہم انہوں نے سابق وزیر اعظم کی طبی رپورٹس کے بارے میں اب بات کرنے میں معذوری ظاہر کی ہے۔ اس سوال کے کھوج کے لئے پیتھالوجی کے ہی شعبہ کے ایک اور ماہر ڈاکٹر خالد رسول سے جب یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کے موجود طبی نظام میں میڈیکل رپورٹس میں ردوبدل کتنا آسان کام ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ اس کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔
’البتہ معیاری لیب میں کسی بھی طرح سے سیمپلز میں ہیرا پھیری کرنا یا رپورٹس کو نیچے اوپر کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اس کی بڑی وجہ کمپیوٹرائزڈ نظام ہے جہاں ہر چیز کا آڈٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیں اگر آپ کو کسی لیب کے ٹیسٹ پر یقین نہیں تو اسی وقت لیبارٹری تبدیل کر کے کسی دوسری لیبارٹری سے آپ ٹیسٹ کروا لیتے ہیں اور اسی وقت پتا چل جائے گا کہ گڑ بڑ ہوئی یا نہیں۔‘
ڈاکٹر خالد رسول نے البتہ یہ بھی بتایا کہ سفید خلیوں کے ٹیسٹس میں بہر حال سیمپل لینے کی ٹیوب میں محلول کی کمی بیشی یا سیمپل دو ملی لیٹر سے زیادہ لینے کے باعث ان کی تعداد میں فرق آ سکتا ہے۔ ’لیکن ایسا صرف ایک بار ہوسکتا ہے اگر مریض کے ٹیسٹ ہر دوسرے روز لئے جا رہے ہوں تو غلطی رفع جاتی ہے۔‘
