فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے عظیم رفیق نے ای ایس پی این کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے کلب میں انہیں محسوس کرایا گیا کہ وہ باہر کے ہیں۔
2009 میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں قدم رکھنے والے کھلاڑئ کہتے ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ میں یارک شائر میں خودکشی کرنے کے کتنے قریب تھا۔ میں ایک پروفیشنل کرکٹر کی حیثیت سے اپنے خاندان کے خوابوں کی تعبیر کر رہا تھا لیکن اندر ہی اند میں مر رہا تھا۔ میں کام پر جانے سے ڈر رہا تھا۔ مجھے ہر دن تکلیف ہوتی تھی۔ایک ایسا وقت تھا جب میں نے مسلمان ہونے کے ساتھ یہ کوشش کی کہ میں ان میں فٹ ہو جاؤں جس پر اب میں پیچھے دیکھتا ہوں تو مجھے پچھتاوا ہے اور میں بالکل فخر محسوس نہیں کرتا لیکن جب میں وہ کام نہیں کرتا تھا تو مجھے ایسا باور کروایا جاتا تھا کہ جیسے میں باہر سے ہوں ان کا حصہ نہیں ہوں۔‘
عظیم رفیق کے الزامات کے جواب میں یارک شائر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سابق کھلاڑی سے رابطے میں ہیں۔
پریس ایسوسی ایشن کو دیے گئے ایک بیان میں یارک شائر کی جانب سے کہا گیا کہ ’کلب میں مساواتی کمیٹی ہے ، جس کی سربراہی بورڈ کے ممبر حنیف ملک کر رہے ہیں۔ حنیف ان الزامات کے بارے میں عظیم کے ساتھ رابطے میں ہیں اور کمیٹی کو دوبارہ رپورٹ کریں گے-‘
عظیم رفیق کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے الزامات کی وجہ سے ان کی کرکٹ میں واپسی کے امکانات خراب ہوسکتے ہیں۔
ان شکایات کے بارے میں جب انگلینڈ ٹی 20 ٹیم کے کپتان آئن مورگن سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انگلش کرکٹ میں مختلف قسم کا کلچر ہے۔ میرے خیال میں کھلاڑیوں کی جو ٹیم بنائی گئی ہے اس میں ہمارے پاس مختلف ثقافتوں اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں جس کی وجہ سے انگلینڈ کی کرکٹ آج اس مقام پر ہے۔
لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ ابھی بھی اس معاملے پر مزید گفتگو کی گنجائش موجود ہے اس پر بات ہو سکتی ہے اور بہتر کیا جا سکتا ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک ایسا معاملہ جہاں ہم بہتر ہوسکتے ہیں اس کے بارے میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے۔ معاشرے میں نسل پرستی کا وجود نہیں ہونا چاہئے اور جب لوگ اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو انہیں کسی قسم کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔‘