سعودی نوجوان نے درختوں کے ٹکڑوں، ٹہنیوں اور شاخوں کو قابل دید فن پاروں میں تبدیل کیا ہے۔
احمد الحربی نجی ورکشاپ میں درختوں کے ٹکڑوں سے ایسے اچھوتے فن پارے تیار کررہا ہے جنہیں عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق احمد الحربی کا کہنا ہے کہ اسے بچپن ہی سے لکڑیوں سے خاص لگاؤ ہے۔ زرعی فارموں سے درختوں کی لکڑیاں گھر لے آتا اور ان سے کوئی نہ کوئی نئی چیز تخلیق کرلیا کرتا تھا۔ اسے کھیتوں میں پڑی لکڑیاں، شاخیں نذر آتش کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
احمد الحربی کا کہنا ہے کہ الاثل نامی درخت کی شاخوں سے کثیر المقاصد تحائف تیار کیے اور پھر اس میں کمال حاصل ہوگیا۔ میں یہ سنتا آیا تھا کہ الاثل کے درخت کی لکڑی ٹھوس ہوتی ہے۔ اس سے مختلف اشیا تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سعودی نوجوان نے بتایا کہ بچپن سے لکڑیوں سے میری دوستی چل رہی ہے۔ لکڑیوں سے تجدد پذیر توانائی ملتی ہے اور یہ ماحول دوست ہوتی ہیں۔ میرا تعلق مدینہ منورہ سے ہے وہاں ہمارے خاندان کا زرعی فارم ہے۔ یہیں سے اپنے طور پر گری ہوئی لکڑیوں سے تحائف تیار کرنے کا ہنر سیکھا۔ لکڑیوں سے دلچسپی رکھنے والے کئی دوستوں نے بھی مشوروں سے نوازا۔ علاوہ ازیں یو ٹیوب سے بھی میں نے کافی کچھ سیکھا۔ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انسان عزم و ارادے کا مالک ہو تو وہ رفتہ رفتہ کافی کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ایک تجربے سے دوسرا تجربہ ملتا چلا جاتا ہے۔ تجرباتی عمل نے مجھے اچھا کاریگر بنادیا۔
الحربی کا کہنا ہے کہ زیادہ مشکل ورکشاپ سے ہوتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ورکشاپ چھوٹا سا تھا۔ والد کو پتہ چلا تو انہوں نے حوصلہ افزائی کے لیے مجھے زرعی فارم میں بڑا ورکشاپ قائم کرنے کی جگہ دی۔
رفتہ رفتہ کام میں جدت پیدا ہوتی چلی گئی۔ لکڑیوں سے تحائف تیار کرنے والا سازوسامان مہنگا ہونے اور خام مواد آسانی سے نہ ملنے کی وجہ سے بھی دشواریاں پیش آئیں۔
الحربی نے بتایا کہ ایک بات یہ بھی نوٹ کی کہ مدینہ منورہ بلکہ سعودی عرب میں اس قسم کے فن پاروں کی تیاری اور مارکیٹنگ والی کمپنیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مجبورا کئی چیزیں باہر سے منگوانا پڑیں۔ اس میں دوستوں نے تعاون کیا۔ شروع میں میری دستی مصنوعات معمولی درجے کی تھیں۔نئے آلات اور تجربات میں نکھار کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔ لکڑیوں کے ساتھ پیتل، سنگ مرمر، لوہا وغیرہ بھی استعمال کیا- اب جو چیزیں میں تیار کررہا ہوں وہ بے حد مختلف ہیں۔
مزید پڑھیں
-
رنگوں سے منفرد عکاسی کرنے والی باہمت نابینا فنکارہNode ID: 487941
الحربی نے اعتراف کیا کہ شروع میں احساس یہ تھا کہ مدینہ منورہ اور اس کے مضافات میں الاثل کا درخت بہت کم تعداد میں پایا جاتا ہے۔ تلاش کیا تو پتہ چلا کہ یہ درخت مدینہ منورہ اور اس کے مضافات میں کثیر تعداد میں ہے۔ ہمارےکاشت کار اس درخت کو نذر آتش کردیتے تھے اور ایک طرح سے اسے کھاد کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں کاشتکاروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو وہ اس کی حفاظت کرنے لگے۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد درختوں کی لکڑیوں سے دستی مصنوعات تیار کررہا ہوں- لوگ پسند کررہے ہیں- میری شہرت امریکہ، روس، آسٹریلیا اور مشرقی ایشیا تک میں پھیل گئی ہے- ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ جب میری مصنوعات دیکھتے ہیں تو انہیں یقین نہیں آتا کہ یہ سعودی ساختہ ہیں-