وزیر اعظم کو جہاں موقعہ ملے سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں۔ خصوصا بیرون ممالک کے دوروں پر، اکنامک فورمز کے اجلاسوں میں عمران خان نے ہمیشہ ہی سیاحت کی ترویج کی بات کی ہے۔ وہ اکثر اپنی گفتگو میں شمالی علاقہ جات کے قدرتی حسن کی تعریف کرتے ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان صرف باتیں ہی بناتے ہیں وہ اب کسی مغالطے میں نہ رہیں اس لیے کہ اب حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے شمالی علاقہ جات کی سیر کا مربوط پلان بنا لیا ہے۔
یہ پلان اتنا احسن ہے کہ پوری قوم کو فرداً فرداً شمالی علاقہ جات کے دلکش نظاروں کی سیر کروائی جا سکتی ہے۔ گمان یہ ہے کہ ہر شخص کی سہولت کے مطابق ان دشوار گذار علاقوں کی سیر کا پروگرام مرتب کیا جائے گا۔ پنجاب ہو یا سندھ ، بلوچستان ہو یا کے پی کے یہ سہولت ہر علاقے کے عوام کے لئے مفت دستیاب ہے۔ نہ اب علاقے کی کوئی قید ہے نہ ذات پات کا کوئی مسئلہ ہے۔ نہ زبان اس تفریح میں آڑے آتی ہے نہ رنگ و نسل کی تخصیص برتی جاتی ہے۔ نہ عمر دیکھی جاتی ہے نہ عہدہ ۔ یہ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے۔
مزید پڑھیں
-
’انقلاب کیسے آئے گا؟ بتائیں نا انکل؟‘Node ID: 456951
-
’اب کسی بیٹے کو کیمرہ مین نہیں بنانا‘Node ID: 459711
-
نہ بس چل رہا ہے نہ بس چل رہی ہےNode ID: 500036
پرانے زمانے میں ان علاقوں میں مدت سے کام کرنے والے ٹور آپریٹر اس طرح کی سیر کے لیے کسی گروپ کی تشکیل کے منتطر رہتے ہیں۔ مگر اب حسن انتظام یہ ہے کہ یہ سیر فرداً فرداً بھی کروائی جا سکتی ہے۔
سفر کی سہولیات بیان کرنے سے پہلے ٹور آپریٹر کا دعوی آپ کو بیان کر دوں ۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ سیر آپ کو تمام عمر یاد رہے گی۔ بلکہ آپ کے قلب و جاں پر اس یاد کے نشان بھی چھوڑ جائے گی۔ ایک دفعہ آپ یہ سیر کر لیں پھر خواب میں بھی آپ کو یہ مناظر بار بار نظر آئیں گے۔ دن بھر آپ کو اسی سیر کا خیال ستائے گا۔
سمجھیں اس سیر کے بعد آپ کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو جائے گا۔ آپ کو نئی زندگی ملے گی۔ آپ کو زندگی کی قیمت کا پتہ چل جائے گا۔ زندگی کے بارے میں آپ کا زاویہ بدل جائے گا۔ ان علاقہ جات کے حسن کی پاکیزگی ایک دفعہ دیکھنے کے بعد آپ کے ذہن سے فاسد خیالات دور ہو جائیں گے، اختلاف رائے مفقود ہو جائے گا اورہمہ وقت امن اور خوشحالی کے گیت گانے کو من کرے گا۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36496/2020/afp1_0.jpg)
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس سیر کے لیے آپ کو کسی قسم کے سفری انتظامات کی ضرورت نہیں۔ نہ بستر بند درکار ہے نہ کھانے کا ٹفن ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ نہ سفر کے لیے کپڑے رکھنے کی ضرورت ہے نہ ٹکٹ خریدنے کے لیے کسی لائن میں لگنے کی حاجت ہے۔
یہ انتظامات حکومت کی جانب سے بالکل مفت کیے جاتے ہیں۔ آپ کا رہنا سہنا، کھانا پینا، آمد ورفت کے لیے گاڑی کا انتظام ہر چیز بالکل فری مہیا کی جاتی ہے۔ مسافروں کے آرام کے لیے حکومت کی جانب سے ’پک اینڈ ڈراپ‘ سروس بھی فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن حکومت میں بھِی انسان ہیں کام کرتے ہیں، بھول چوک ان سے بھی ہو جاتی ہے۔
ایسی شکایات مسافروں کی جانب سے سنی گئی ہیں کہ ’پک‘ کہیں سے کیا جاتا ہے اور ’ڈراپ‘ کہیں اور کر دیا جاتا ہے۔ اب فری کے ٹرپ میں یہ تو ہو گا۔ اس پر زیادہ ہا ہا کار مچانے کی ضرورت نہیں مفت کے کام میں اتنی تھوڑی تکلیف تو اٹھانی پڑتی ہے۔ مزید یہ کہ اس موقعے پر آپ کو کار پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں آپ کو جہاں سے ’پک‘ کیا جائے گا کار وہیں پارک رہے گی حتی کے اس میں چابی بھی لگی رہے گی۔ آپ کی کار کی حفاظت کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے۔ کسی کے باپ کی مجال ہے کہ آپ کی عین سڑک کے بیچ پارک کار کی طرف بری نگاہ بھی ڈال دے۔ آپ کی طرح آپ کی کار کی حفاظت بھی حکومت کے ذمے ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36496/2020/5880359f7e56e.jpg)
جو بھی مسافر آج تک شمالی علاقہ جات کی مفت سیر کی سہولت سے فائدہ آٹھا چکے ہیں وہ سب محکمہ سیر وسیاحت کے بہت ممنون ہیں۔ کئی تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ اس سیر کے بعد ہمیں نئی زندگی ملی ہے۔ سب ہی ان کے حسن سلوک اور صلہ رحمی کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ سفر سے واپس آنے والے خوش قسمت مسافروں نے بتایا کہ شمالی علاقہ جات کے مناظر اتنے سحر انگیز ہیں کہ شدت حسن سے آنکھیں پھٹ جاتی ہیں۔
اسی کو مدنظر رکھ کر بعض اوقات مسافروں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے کہ مبادا ان کی آنکھیں پتھرا ہی نہ جائیں۔ اس طرح جب مسافر قدرتی مناظر کو پہلے پہل دیکھ کر اچھل کود کرتے ہیں تو ایک نرم مہین زنجیر سے ان کے ہاتھ پاوں باندھ دیے جاتے ہیں جس سے سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
مسافروں کے چہروں پر اس سفر کے دوارن عین نیند میں بھی بارش کی بوندوں کی پھوار جاری رہتی ہے۔ کچھ مسافر فرط مسرت سے چیخنے چلانے بھی لگتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ٹور آپریٹرز کی مسلسل توجہ سے یہ مسائل بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ خوشی کے مارے آواز بند ہو جاتی ہے چونکہ سفر طویل اور دشوارگذار ہے اسلئے بعض اوقات اسکے نشانات جسم پر رہ جاتے ہیں۔ جس کے لئے ادارہ معذرت خواہ رہتا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36496/2020/564880641f14d.jpg)