اگر کبھی تفریح کا دل کرے اور ذہن میں یہ خیال آئے کہ چلو آج کچھ احسان فراموشوں سے مل کر آتے ہیں تو کہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، دو لاکھ سے زیادہ تو آپ کو دلی میں ریلوے کی پٹریوں کے قریب ہی مل جائیں گے۔ انہوں نے ریلوے کی زمین پر اپنے کچے پکے مکان بنا رکھے ہیں اور دن بھر مفت میں ٹرینوں کا نظارہ کرتے ہیں۔
اور ہم جیسے لوگوں کو ریلوے پلیٹ فارم پر جانے کے لیے بھی لائن میں لگ کر دس روپے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔
ان میں سے کچھ مکان تو پٹریوں کے اتنے قریب ہیں کہ ٹرینیں بس کسی طرح دامن بچا کر نکل پاتی ہیں۔ اب ان لوگوں پر، اور ان 48 ہزار جھگیوں پر جن میں وہ رہتے ہیں، سپریم کورٹ کی نظر پڑ گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
فیس بک کی بی جے پی لیڈر پر پابندیNode ID: 502791
-
کبھی دیے جلائے اور کبھی دلNode ID: 503941
-
خواتین کے دکھ اور بے بسی کی انتہاNode ID: 504861
اور آج کل سپریم کورٹ کی جس پر نظر پڑ جائے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔
بہرحال، قصہ مختصر یہ کہ سپریم کورٹ کے خیال میں یہ سیفٹی کا ایشو ہے اس لیے عدالت نے تین مہینے کے اندر تمام 48 ہزار جھگیوں اور ان میں رہنے والے تقریباً سوا دو لاکھ لوگوں کو ہٹانے کا حکم دے دیا۔ اور ساتھ ہی یہ فرمان بھی صادر کیا کہ ملک کی کوئی دوسری ذیلی عدالت اس کیس میں کسی قسم کا سٹے آرڈر جاری نہیں کرے گی۔
ان کچے مکانوں میں رہنے والے پریشان ہیں کہ کبھی ٹرین میں سفر کرنا ہوگا تو کہاں پہلے بسوں میں دھکے کھاتے پھریں گے؟ اب تو ہاتھ دیتے ہیں اور ٹرین رک جاتی ہے، ان کے گھر میں سے ہوکر جو گزرتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/one_india.jpeg)
اب انہیں ہم جیسے لوگوں کی طرح یا تو کرائے پر گھر لینے پڑیں گے یا چاہیں تو خرید بھی لیں کیونکہ زندگی میں کبھی پلیٹ فارم ٹکٹ تو انہوں نے خریدا نہیں ہے، ایک چھوٹا موٹا گھر خریدنے لائق پیسے تو بچا ہی لیے ہوں گے۔ لیکن یہ ناراض ایسے ہو رہے ہیں جیسے کوئی زیادتی ہو رہی ہو، جیسے ریلوے والوں نے انہیں دعوت نامہ بھیجا تھا کہ پٹریوں کے بیچ میں آکر گھر بنا لو۔
بھائی اتنا بڑا ملک خالی پڑا ہے اور آپ کو ریل کی پٹریاں ہی نظر آئیں۔ دلی میں بڑے بڑے لوگوں نے سرکاری زمین پر گھر بنائے ہیں، ایسی عالیشان کوٹھیاں کہ جن کا آپ تصور نہیں کر سکتے، لیکن انہیں کبھی کوئی پریشان نہیں کرتا کیونکہ وہ ٹرین کی پٹریوں کے کنارے نہیں ہیں۔ باقی آپ جہاں چاہیں جو کرلیں، کسے پرواہ ہے لیکن سرکاری زمین پر گھر بنانے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔
آپ خود ہی سوچیے لاکھوں لوگ روز ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں اور ان کے گھروں میں جھانکتے ہوئے جاتے ہیں، کون سی غیرت پسند عدلیہ یا حکومت یہ برداشت کر سکتی ہے؟ اس لیے سوچا ہوگا کہ یہاں سے تو ہٹاؤ، یہ جائیں گے کہاں یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ فی الحال بے پردگی سے تو بچیں گے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/two_india.jpeg)
آپ کو شاید یاد ہو کہ جب صدر ٹرمپ انڈیا آئے تھے تو وزیراعظم مودی انہیں احمدآباد لے گئے تھے۔ لیکن ایئرپورٹ کے راستے میں ایک کچی بستی بھی تھی اس لیے راتوں رات اس کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی گئی تھی۔ نہ اس بستیوں میں رہنے والوں کو پتا چلا ہوگا کہ دنیا کا سب سے طاقتور انسان ان کے کتنے قریب سے ہوکر گزر گیا اور نہ صدر ٹرمپ کو یہ معلوم ہوا ہوگا کہ دنیا کے سب سے کمزور لوگ کس حال میں رہتے ہیں۔ وہ دیکھ بھی لیتے تو شاید سمجھتے کہ ان کے استقبال میں کسی بڑی سٹیج پرفارمنس کا انتظام کیا گیا ہے۔
لیکن دلی میں ان غریبوں کی طرف سے آواز اٹھانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ پہلے دلی کی حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی نے اعلان کیا کہ جھگیوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، پھر کانگریس نے سپریم کورٹ سے کہا کہ جب تک انہیں کہیں دوسری جگہ الاٹ نہیں کی جاتی انہیں نہ ہٹایا جائے اور پھر حکومت نے عدالت کو یقین دلایا کہ انہیں ہٹانے کے بارے میں فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے ایک مہینے تک ریلوے کے یہ بن بلائِے مہمان محفوظ رہیں گے۔
لیکن اگر دلی کی حکومت بھی فکرمند ہے اور وفاقی حکومت بھی نہیں چاہتی کہ کوئی معصوم کورونا وائرس کے اس مشکل دور میں بے گھر ہو جائے، تو نوبت یہاں تک آئی ہی کیوں؟ ایسا تو نہیں کہ کہیں الیکشن ہو رہے ہوں اور ایسے میں جب ٹی وی پر یہ تصویریں دکھائی جائیں گی تو غریب ووٹر غریبوں کے ساتھ زیادتی کرنے والی حکومت کو سبق سکھانے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں؟ اور سیاسی پارٹیوں کے لیے اس سے بری خبر اور کیا ہو سکتی ہے؟
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/india_inside.jpg)
اس لیے یہ مان کر چلیے کہ جب تک بہار کا الیکشن نہیں نمٹ جاتا زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو دلی میں خالی پڑے سرکاری مکانوں میں بسا دیا جائے۔
ہم نے کافی سوچا کہ کوروناوائرس کے دوران انہیں ہٹانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ایسا تو ہے نہیں کہ یہ وہاں ابھی آکر بسے ہوں اور فوراً نہ ہٹایا گیا تو پٹریوں پر مالکانہ حقوق کا دعویٰ کرنے لگیں گے۔ ویسے بھی زیادہ تر ٹرینیں بند پڑی ہیں اور نا معلوم کب دوبارہ شروع ہوں گی۔ بلکہ یہ تو اچھا موقع تھا کہ پٹریاں انہیں باقاعدہ کرائے پر دے دی جاتیں کچھ اسی انداز میں جیسے کچھ راستوں پر ٹرینوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس سے ریلوے کی آمدنی بڑھے گی۔
لیکن اسی ہفتے اخبار میں یہ بھی پڑھا کہ حکومت سات نئے راستوں پر بلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور ان پراجیکٹوں پر دس کھرب روپے خرچ ہوں گے۔ پھر پورا منصوبہ سمجھ میں آگیا۔ بس مسئلہ یہ ہےکہ آج کل حکومت کی جیب خالی ہے۔ معیشت کا حجم اس سال کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 25 فیصد گھٹا ہے، اس لیے حکومت کی آمدنی اتنی گھٹ گئی ہے کہ ریاستوں کو ان کے واجبات ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ایسے میں بلٹ ٹرین کی باتیں کرنے سے اور کچھ نہیں تو دل ہی لگا رہے گا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ جیسے بلٹ ٹرین چل تو رہی ہے لیکن اتنی تیز کہ نظر نہیں آتی۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/three_india.jpeg)