اگر پاکستان فرانس ہوتا تو ابھی تک ایسا سربراہ برطرف ہو کر گھر بیٹھا ہوتا (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور موٹر وے زیادتی کیس کو آج ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ ان سات دنوں میں صدمہ، اشتعال، بے بسی جیسے جذبات کی پگڈنڈی سے گزرنے کے بعد اب اس معاشرے کو اور اس نظام کے کرتا دھرتاؤں کو ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا جو ہمارے دیمک زدہ نظام کی خامیاں عیاں کر رہے ہیں۔
اس واقعے سے جڑا ہر پہلو چیخ چیخ کر یہ احساس دلا رہا ہے کہ جن کے ذمے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دای ہے ان کی اہلیت اور نیت دونوں ہی قابل بھروسہ نہیں۔ اور اگر اس داستان میں آپ کا تعلق مظلوم آبادی کے اس 50 فیصد حصے سے ہو جن کی روزمرہ زندگی پہلے ہی مشکل اور تکلیف دہ ہو تو ریاست بجائے ان کی داد رسی کے انہی کو مورد الزام ٹھہرا دیتی ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟
سب سے پہلے چمکتی دمکتی شاہراہوں کی حفاظت کے لیے اربوں روپے سے فورسز کھڑی کی گئی ہیں۔ لاہور سیالکوٹ موٹر وے کھلنے کے بڑے ذوق و شوق سے اعلانات کیے گئے۔ کریڈٹ بھی لیے گئے۔ ٹول پلازہ پر داخل ہوں تو سخت گیر سٹاف پیسے لیے بغیر کسی کو چھوڑتا ہی نہیں۔
مگر اسی ٹول پلازہ سے چند سو میٹر دور ایک خاتون گھنٹوں مدد کا انتظار کرتی رہی مگر کوئی این ایچ اے، کوئی موٹر وے پولیس، کوئی صوبائی پولیس اور کوئی محکمہ مدد کو نہ آیا اور اگر آئے تو مجرم ڈاکو۔ کیا گارنٹی ہے کہ اس ملک کی شاہراہیں محفوظ ہیں؟ اور شاہراہیں تو ایک طرف کیا اس ملک کے شہر اور گلیاں محفوظ ہیں؟ جواب یقینا نفی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اتنا بڑا واقعہ ہو گیا مگر پاکستان کے دوسرے بڑے شہر کے پولیس سربراہ کو تسلی اور تشفی کے چند الفاظ بھی نہیں مل سکے۔ مظلوم خاتون کے لیے الزامات مل گئے اور پاکستان کو فرانس نہ سمجھنےکے مشورے بھی۔
اگر پاکستان فرانس ہوتا تو ابھی تک ایسا سربراہ برطرف ہو کر گھر بیٹھا ہوتا۔ انصاف کے نام پر ووٹ لینے والی جماعت بھی ایک مصدقہ نا اہل پولیس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اور بات ایک یا دو پولیس افسروں کی نہیں بات تو سارے محکمے کی ہے۔
آج کون سی ایسی خاتون ہوگی جو پولیس تھانوں میں بغیر کسی مرد اور سفارش کے جا کر رپورٹ کرا سکے۔ اگر کوئی شک ہو تو حکومتی خاتون اراکین ہی تجربہ کر کے دیکھ لیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ خواتین سے تعصب کتنا گہرااور عام ہے۔
اگر پولیس کا سربراہ ایسا ہے تو سوچیں عام تھانیدار اور سپاہی کیسے ہوں گے۔
اب تو وہ جو پولیس کلچر بدلنا تھا اس کے تو اب دعوے بھی سنائی نہیں دیتے۔ اب شہریوں کو ڈاکوؤں سے بھی بچنا ہے اور پولیس سے بھی۔ وزیراعظم بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان بلانے اورسیاحت کو اربوں ڈالر کی صنعت بنانا چاہتے ہیں۔ باہر سے آنے والے کس کا اعتبار کریں؟ مہذب اور غیرمہذب معاشروں میں فرق قانون کی عمل داری کا ہی ہوتا ہے۔ اس نظام کے ساتھ جو باہر سے آنے کی غلطی کر چکے ہیں وہ بھی واپس جانے کا سوچ رہے ہیں اور غیر ملکی سیاح کیسے آئیں گے جب اس ملک کی شاہراہیں محفوظ ہیں نہ پولیس قابل اعتبار-
کیس کی تفتیش نااہلی کے مزید ثبوتوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ پولیس کے بقول اس نے جو دو ملزم ڈھونڈے ہیں وہ پہلے بھی اس قسم کی وارداتیں کر چکے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
پنجاب پولیس کا بجٹ سو ارب کے لگ بھگ ہے اور تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ۔ کیا سنگین مجرموں کی نگرانی کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے اور کیا سنگین مجرموں کو سزا دینا ترجیح ہے؟
مشکوک افراد کی نگرانی یعنی prevention پھر جرائم کے بعد ان کا بروقت سراغ لگانا یعنی detection اور سراغ لگانے کے بعد آخر میں ان کے خلاف مقدمہ چلانا یعنی prosecution، کسی بھی موثر نظام انصاف کے تین ستون ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں ان میں سے کوئی بھی قابل اعتبار نہیں۔ سنگین سزاؤں کے نعروں سے زیادہ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ اول تو مجرم کو جرم کرنے کا موقع نہ ملے اور اگرایسا ہو بھی تو سزا سے نہ بچ سکے۔ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد سالانہ ہزاروں میں اور سزا نہ ہونے کے برابر۔ اگر کیس عدالت تک پہنچ بھی جائے تو کیس واپس لینے اور صلح کرنے کا دباؤ۔
ضرورت اس امر کی ہے عورتوں کے خلاف جرائم کے لیے علیحدہ تفتیشی ادارے اور علیحدہ عدالتیں قائم کی جائیں۔ ریاست زیادتی کے کیسز میں مدعی بنے اور کیسز کو خواتین کی شناخت پس پردہ رکھتے ہوے منطقی انجام تک پہنچائے۔ حکومت کی اپنی وفاقی پارلیمانی سیکرٹری قانون ملیکہ بخاری کے مطابق پولیس میں خواتین کی نمائندگی ایک فیصد ہے۔
50 فیصد آبادی کی ایک فیصد نمائندگی۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت ملازمتوں میں خواتین کی 10 فیصد نمانندگی کا کوٹہ مقرر کر چکی ہے مگر موجودہ حکومت کی ترجیحات باتوں سے آگے ہی نہیں بڑھ سکیں۔ نہ نظام انصاف اور پولیس میں بہتری کا کوئی امکان ہےاور نہ خواتین کے حقوق اور تحفظ کا۔
حکومت اور ارباب اختیار کو سوچنا ہو گا اس ملک کی خواتین کا غصہ، دکھ اور بے بسی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ پچھلے ہفتے شاید ہی کوئی خاتون چین سے سو سکی ہو۔
ایک واقعے نے ان لاکھوں سے بھی زیادہ خواتین کی زندگیوں کے رخ بدل دیا ہے جو گھر سے باہر نکل کر سودا سلف سے لے کر بچوں کوسکول سے لے کر آتی ہیں۔
اب ان مڈل اور لوئر مڈل کلاس خواتین کے پاس کیا آپشن ہے؟ گھر بیٹھ جائیں؟ مگر گھر میں بھی تو ڈاکووں کے ہاتھوں عزتیں محفوظ نہیں۔ اور خواتین کیا، زینب کیس کے بعد بچیوں سے زیادتی کے کیسز کون سے کم ہو گئے ہیں؟ اس ملک کی خواتین اور ان سے ہمدردی رکھنے والے مرد سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ایسی ہوتی ہے فلاحی ریاست؟ کیا ہے اس کا جواب کسی کے پاس۔