Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فلسطینی انصاف کے حقدار ہیں، اسرائیل سے معاہدہ کر لیں گے‘

ورلڈ جیوئش کانگریس کے صدر رونالڈ لاڈر نے سنہ 1993 کے اوسلو معاہدے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔ فوٹو: عرب نیوز
ورلڈ جیوئش کانگریس کے صدر رونلڈ لاڈر نے پیشن گوئی کی ہے کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا ’ابراہام معاہدہ‘ نہ صرف عربوں اور یہودیوں کے درمیان امن کی نئی راہ کھولے گا بلکہ فلسطینی اور یہودیوں کے درمیان بھی امن کا باعث بھی بنے گا۔
عرب نیوز کے مطابق لاڈر ان کئی سو رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاوس کے ساؤتھ لان میں منعقدہ دستخطوں کی تقریب کے موقع پر مدعو کیا تھا۔
کئی عشروں سے امن کے لیے آواز اٹھانے والے لاڈر جو دنیا کی ایک بڑی کاسمیٹکس کمپنی کے چیئرمین بھی ہیں، نے پیر کے روز عرب نیوز کو بتایا کہ ان کو یقین ہے کہ ابراہم معاہدے سے فلسطین میں امن کا دروازہ کھلے گا اور عرب دنیا میں یہودی کمیونٹی کی موجودی مزید مضبوط ہو گی۔

 

’میرے خیال میں یہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اور اسرائیل و بحرن کے درمیان ہونے والا معاہدہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے پورے خطے کو کھول دیا ہے اور یہ موقع ہے ایک دوسرے پر اعتماد شروع کرنے کا، اس کا اثر بہت تیزی سے پورے مشرق وسطیٰ پر پڑے گا، مجھے یقین ہے کہ بہت جلد دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہوں گے۔‘
لاڈر کا مزید کہنا تھا ’مجھے یقین کامل ہے کہ فلسطینی جو اس تمام صورت حال کو دیکھ رہے ہیں، وہ بھی آخرکار یہ کہیں گے کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ میز کے گرد بیٹھیں اور کہیں گے، آئیں امن پر بات کریں‘
لاڈر ارب پتی ہیں اور یہودیوں کی حمایت کے لیے سو سے زائد ممالک میں اپنا پیسہ خرچ کرتے رہے ہیں۔ ورلڈ جیوئش کانگریس پہلے سے ہی بحرین میں یہودیوں کے ساتھ کام رہی تھی۔ وہ جلد ہی یو اے ای کی یہودی کمیونٹی کو اپنی آرگنائزیشن میں شامل کرنے لیے ووٹ بھی دیں گے۔
’ہمارے پاس بحرین ورلڈ جیوئش کانگریس کے ایک حصے کے طور پر ہے اور ہم نے ابھی یو اے ای کی یہودی کمیونٹی کے لیے ووٹ دیا ہے۔‘

مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

لارڈ جیوئش نیشنل فنڈ کے چیئرمین ہیں اور اس سے قبل وہ امریکہ کی بڑی یہودی تنظیموں کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ وہ اس وقت کلینیکل لیبارٹریز کے چیئرمین، ایل ایل سی اور لاڈر کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے بارے میں انہوں نے کہا ’مجھے اصل تعداد تو معلوم نہیں لیکن وہاں پر یہودی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہاں ان کے پاس جیوئش سکول ہے جس کے ساتھ ہم فاؤنڈیشن کے توسط سے کام کر رہے ہیں۔ بحرین میں، میں نے سائناگوگ کا دورہ کیا اور وہاں یہودی دیکھے‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ یہ امن ڈیل ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ بہت سے یہودی لوگ یہ کہتے ہوئے باہر نکلیں گے کہ ہم یہودی ہیں۔ یہ دونوں ممالک کے مابین آگے اور پیچھے کا معاملہ ہو گا، میرے خیال میں دوسرے ممالک کی نسبت یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان زیادہ طیارے اڑیں گے جو کہ کافی اہم بات ہے۔ 
لاڈر نے کہا کہ وہ 13 ستمبر 1993 کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والے امن معاہدوں میں شرکت کر چکے ہیں، ان کو یقین ہے کہ یو اے ای اور بحرین کے ساتھ ہونے والے معاہدے بہت اہم ثابت ہوں گے۔ 

امارات اور بحرین کے اسرائیل سے تاریخی معاہدے میں امریکی صدر نے ثالثی کی۔ فوٹو: اے ایف پی

’میرے خیال میں یہ بات اس وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یو اے ای اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ کوئی فوجی تصادم نہیں ہوا۔ اس معاہدے سے مل کر کام کرنے کی ایک چھی ایک مثال قائم ہو گی۔‘ 
ان کا یہ بھی کہنا تھا ’میرے نزدیک دوسرے ممالک بھی مشرق وسطیٰ کی پیروی کریں گے جس سے صورت حال تبدیل ہو گی اور اس کا بہت بڑا اثر فلسطینیوں پر پڑے گا۔ یہ ان کو پیغام دے گا کہ یہ امن قائم کرنے کا وقت ہے۔ میرے خیال میں یہ امر فلسطینیوں کو میز تک لانے کے لیے اہم ثابت ہو گا‘
لاڈر نے کہا کہ یہ سوال آج کل سب سے پوچھا جا رہا ہے کہ فلسطینی کیا کرنے جا رہے ہیں؟
اس کے جواب میں انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’میرے خیال میں اب فلسطینیوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ یہ امن قائم کرنے کا وقت ہے انہیں انتظار نہیں کرنا چاہیے، وہ انتظار نہیں کر سکتے۔ اعتماد راتوں رات بحال نہیں ہوتا۔ یہ دونوں اطراف سے وقت لیتا ہے، مستقبل قریب میں شدت پسند عناصر اعتماد کی بحالی کو روکنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔‘
لاڈر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ آخرکار فلسطینی اسرائیل کے ساتھ  معاہدہ کر لیں گے کیونکہ وہ انصاف کے حقدار ہیں۔ 

امریکی صدر نے ان معاہدوں کو مشرق وسطی میں امن کی جانب تاریخی موڑ قرار دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک اور فلسفیانہ خیال کا اظہار کرتے ہوئے لاڈر نے عربوں اور یہودیوں کو ابراہیم کی اولاد قرار دیا، اس کے لیے انہوں نے متذکرہ بالا معاہدے کے نام کا حوالہ دیا کہ ایک دن دو لوگ مل کر عالمی ایشوز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
’یاد رکھو، ہم سب ابراہیم کے بچے ہیں، ہم کزنز ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم میں سے کچھ یہودی ہوں گے، کچھ مسلمان اور کچھ مسیحی، یہ سب ایک میز کے گرد بیٹھے ہوں گے اور معاملات پر بات کرتے ہوئے ایک جیسے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔‘
لاڈر نے کہا کہ انہیں اس دن کا انتظار ہے جب یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں پر مشتمل تھنک ٹینکس مل کر کام کر رہے ہوں گے۔
’یہ ہمارا مستقبل ہے اور یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔‘

شیئر: