پاکستان میں ان دنوں یہ بحث ایک بار پھر زوروں پر ہے کہ ریپ کے مجرموں کو موت کی سزا سرعام پھانسی کی صورت میں دی جائے یا ایسا نہ کیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان خود ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ سر عام پھانسی کی سزا کے حامی ہیں۔ ایسے میں حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے سینیٹ میں سرِعام پھانسی کی سزا کا بل قانونی سازی کے لیے جمع کروایا ہے۔
یہ بل ن لیگ کے سینیٹر جاوید عباسی نے جمع کروایا ہے۔ اس بل کو بچوں کو جرائم سے تحفظ کے ترمیمی بل کا نام دیا گیا ہے اور اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز شامل ہے۔
مزید پڑھیں
-
ریپ کا شکار 14 سالہ لڑکی کے ہاں بیٹی کی پیدائشNode ID: 460376
-
موٹروے زیادتی کیس ملزمان تک پولیس کیسے پہنچی؟Node ID: 504661
-
’زیادتی کرنے والوں کو چوک پر لٹکایا جائے‘Node ID: 505026
اس بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات کا ٹرائل ہائی کورٹ کرے اور دو مہینے کے اندر ان مقدمات کا فیصلہ بھی کیا جائے۔
اس سے پہلے بھی رواں سال فروری میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی محمد نے سرعام پھانسی کے مطالبے کی قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کی تھی جسے اسمبلی نے منظور کر لیا تھا۔
کیا سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے؟
جب بھی پاکستان میں کوئی سنگین واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ بحث اٹھا لیتی ہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں عدالتی انصاف کی شفافیت کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پراجیکٹ کی سربراہ ایڈووکیٹ سارہ بلال کہتی ہیں کہ اس بحث کو سرے سے ختم ہو جانا چاہیے۔
’آپ مجھ سے نہ پوچھیں آپ اپنے آئین کا آرٹیکل 14 خود پڑھ لیں، اس سے آپ کو واضح ہو جائے گا کہ سر عام پھانسی کا مطالبہ کرنا یا اس کے لیے کوئی کوشش کرنا بے سود ہے کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/000_8pz2yq.jpg)
سارہ بلال نے آرٹیکل 14 کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ’یہ آرٹیکل بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے اور انسانی وقار کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اسلام میں لاش کی بے حرمتی کی ممانعت ہے، آپ کا دشمن خواہ کتنا ہی جابر ہو اگر وہ ایک دفعہ سزا پا چکا تو سزا ختم، آپ اس کی لاش پر غصہ نہیں نکال سکتے۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ آرٹیکل اس بات کا ضامن ہے کہ آپ ایسی کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے جو اس کے خلاف ہو۔‘
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اعظم نزیر تارڑ کی رائے بھی اس سے مختلف نہیں وہ کہتے ہیں کہ ’یہ معاملہ سپریم کورٹ کب کا ختم کر چکی ہیں۔ آرٹیکل 14 کی تشریح پر دس سے زائد فیصلے آ چکے ہیں۔ اور سب سے پہلے سنہ 1994 میں فل بینچ نے یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ سر عام پھانسی کی سزا نہ صرف آئین سے متصادم ہے بلکہ کوئی آئینی ترمیم کا بھی سوچے گا تو اس کو پہلے سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کو ختم کروانا ہو گا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/000_8pv83v.jpg)