’شاہین باغ کی دادی‘ دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل
’شاہین باغ کی دادی‘ دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل
بدھ 23 ستمبر 2020 14:44
شبانو علی -اردو نیوز، ممبئی
بلقیس بانو نے انڈیا میں شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا (فوٹو: فیس بک)
امریکی میگزین نے سنہ 2020 کے لیے 100 بااثر شخصیات کی فہرست جاری کی ہے جس میں اگر ایک جانب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں تو دوسری جانب ان کی حکومت کے ایک قانون کی مخالفت کرنے والی ’شاہین باغ کی دادی‘ بھی ہیں۔
ٹائم میگزین کی فہرست میں انڈیا سے اداکار ایوشمان کھرانہ، انڈین نژاد امریکی رہنما کملا ہیرس کے علاوہ گوگل کے سی ای او سندر پچائی اور ایچ آئی وی پر تحقیق کرنے والے پروفیسر رویندر گپتا بھی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اس رسالے کی فہرست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن، جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی جیسی عالمی قدآور شخصیات بھی شامل ہیں۔
شاہین باغ کی ’دادی‘ کے نام سے معروف 82 سالہ بلقیس بانو کی شمولیت کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا ذکر 100ویں نمبر پر ہے۔ وہ گذشتہ برس پارلیمان کے اجلاس میں منظور کیے جانے والے شہریت کے متنازع ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا چہرہ بن کر سامنے آئیں۔
101 دن تک جاری رہنے والی اس ملک گیر ہڑتال میں وہ جنوب مشرقی دہلی کے شاہین باغ میں روزانہ صبح سے رات دیر تک ہزاروں دوسری خواتین کے ساتھ دھرنے پر بیٹھتی تھیں۔ یہ احتجاج اس وقت ختم ہوا جب ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے ملک گیر پیمانے پر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گيا۔
ان کے بارے میں ٹائم میگزین کی انڈین صحافی رعنا ایوب نے لکھا ہے کہ جب وہ ان سے ملیں تو انہوں نے جاتے ہوئے ان سے کہا ’میں اس وقت تک یہاں رہوں گی جب تک میری رگوں میں خون دوڑ رہا ہے تاکہ اس ملک کے بچے اور دنیا انصاف اور مساوات کی سانس لے سکیں۔‘
دوسری جانب وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے میگزین میں سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اور انڈیا میں جمہوریت کو زک پہنچانے کا ذکر کیا ہے۔
ٹائم میگزین نے لکھا کہ ’جمہوریت کے لیے بنیادی چیز صرف آزادانہ طور پر کرائے جانے والے انتخابات ہی نہیں ہیں۔ انتخابات صرف یہ بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ ووٹ کسے ملے لیکن اس سے زیادہ اہم ان لوگوں کے حقوق ہیں جنہوں نے کامیاب امیدوار کو کو ووٹ نہیں دیا۔ انڈیا گذشتہ سات دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی جہموریت رہی ہے۔‘
اس میں آباد ہندو اور مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کا ذکر کیا گیا اور بقول دلائی لامہ اسے انڈیا کی ’سب کو سمانے کی‘ خصوصیت سے تعبیر کیا گیا۔