’پاکستان نواز شریف کی واپسی کے لیے برطانوی حکومت سے رجوع کر سکتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم نوازشریف کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں لندن سے کی جانے والی تقریر کے بعد حکومت ایک بار پھر سے انہیں وطن واپس لانے کے حوالے سے اقدامات کرنے کے دعوے کر رہی ہے۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جس کے ممبران میں وفاقی وزیر اسد عمر، شیخ رشید احمد، فواد چوہدری، بابر اعوان اور دیگر شامل ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کمیٹی وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کی جانب سے اعلان کردہ تحریک پر سیاسی تجاویز دے گی.
لیکن حکومتی ارکان کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا جار ہا ہے کہ حکومت نوازشریف کو لندن سے واپس لانے کے لیے بھی اقدامات کرے گی۔
کیا نوازشریف کی وطن واپسی میں قانونی رکاوٹ موجود ہے؟
سابق وزیراعظم نوازشریف اس وقت علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں اور ان کی طبی بنیادوں پر ضمانت ختم ہو چکی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ العزیزہ ریفرنس میں نوازشریف کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کر چکی ہے۔
سابق وزیراعظم کو پاکستان واپس لانے کے حوالے سے سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی وطن واپسی برطانوی حکومت کی رضامندی سے مشروط ہے۔
’برطانیہ کے ساتھ پاکستان کا ملزمان کے تبادلے کا قانون تو موجود نہیں ہے لیکن اگر برطانوی حکومت میوچل لیگل اگریمنٹ کے تحت رضا مندی ظاہر کردے تو بالکل لایا جاسکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میوچل لیگل اگریمنٹ موجود ہے جس میں منی لانڈرنگ یا کسی ملزم کے تبادلے کے حوالے سے پاکستان برطانوی حکومت سے رجوع کر سکتا ہے، جس کے بعد حکومت تمام شواہد اور کیس کو پرکھنے کے بعد فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔‘
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ نوازشریف کا معاملہ دیگر ملزمان سے مختلف ہے اور اگر حکومت اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو سابق وزیر اعظم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
’نوازشریف عدالت سے طبی بنیادوں پر ضمانت پر تھے جو کہ اب ختم ہوچکی ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس لیے اب حکومت پاکستان کے پاس سابق وزیراعظم نوازشریف کی حوالگی کے حوالے سے کارروائی کا راستہ موجود ہے۔‘
خالد رانجھا کے مطابق ’پاکستانی عدالت سے جاری وارنٹ گرفتاری اگر برطانوی کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے تعمیل کروائی جائے تو برطانوی عدالت نواز شریف کے خلاف کارروائی کرنے کی پابند ہوگی کیونکہ ہماری عدالت سے جاری وارنٹ اگر کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے بھیجا جائے تو وہ اس عدالت میں بھی وارنٹ گرفتاری ہی تصور ہوگا اور اس کے مطابق انتظامیہ کارروائی کرسکتی ہے۔‘
سابق وزیر قانون کے خیال میں نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے اگر سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو ایسا نہیں ہے کوئی قانونی رکاوٹ موجود ہو۔
’یہ الگ بات ہے کہ کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹ کی تعمیل کے بعد وہاں بھی ملزم کے پاس اپیل کا اختیار موجود ہے لیکن حوالگی کے حوالے سے کارروائی شروع تو کی جاسکتی ہے۔‘
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سابق وزیراعظم نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے اور وفاقی حکومت کو یہ ہدایت دی ہے کہ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل لندن کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے کروائی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اکتوبر 2019 میں العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی تھی اور ضمانت میں توسیع کو پنجاب حکومت کی اجازت سے مشروط کر دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے مشروط طور پر نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے بعد سابق وزیراعظم علاج کے لیے لندن روانہ ہو گئے تھے۔
تاہم عدالت میں نوازشریف کے وکلا کی جانب سے ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم کو لندن میں کس ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر پنجاب حکومت نے بھی ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس، نواز شریف کو نوٹس جاری
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی ختم کرنے کی درخواست پر بھی نوٹس جاری کر دیا ہے، نیب نے ایون فیلڈ میں سزا معطلی کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ملزم کو تو معلوم ہے کہ وہ پورے سسٹم کو شکست دے کر بیرون ملک گیا ہے، اب ملزم باہر بیٹھ کر ہنستا ہو گا کہ کیسے میں نے پورے سسٹم کو دھوکہ دیا۔'
عدالت نے نواز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 اکتوبر تک جواب طلب کرلیا۔