یوں تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے درجنوں رہنما پہلے بھی قومی احتساب بیورو (نیب) کے کیسز کا سامنا کر رہے تھے مگر جب سے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں حکومت کے خلاف اپوزیشن نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کے مزید رہنماوں کو بھی نیب کی طرف سے تحقیقات کے نوٹسز ملنا شروع ہو چکے ہیں۔
جہاں اپوزیشن رہنما یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ حکومت نیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے وہیں نیب کی جانب سے تواتر کے ساتھ دعویٰ سامنے آ رہا ہے کہ احتساب بیورو فیس (چہرہ) نہیں کیس دیکھتا ہے اور تمام تر اقدامات ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ترجمان بھی یہی موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اپوزیشن رہنماوں کے خلاف نیب کیسز ان کی مبینہ کرپشن کا نتیجہ ہیں اور حکومت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں احتساب کتنے ادارے کرتے ہیں؟Node ID: 465636
-
میری ذات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیب آفس بلایا گیا: مریم نوازNode ID: 498046
-
شہباز شریف 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالےNode ID: 508036
حالیہ چند دنوں میں نیب کارروائیاں
حکومتی رہنماؤں اور نیب کی وضاحت کے باجود اتفاق سے اے پی سی کے چند دنوں بعد ہی الیکٹرانک میڈیا میں یہ خبر سامنے آئی کہ اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو نیب خیبر پختونخوا نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں طلب کر لیا ہے۔ اسی دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نیب نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں لاہور سے گرفتار کر لیا جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی نیب روالپنڈی نے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن خالد سجاد کھوکھر کی تقرری کے کیس میں طلب کر لیا۔
اے پی سی کے بعد نیب کی جانب سے طلب کیے جانے والے سیاستدانوں میں تازہ ترین نام مسلم لیگی رہنما خواجہ محمد آصف کا ہے۔
دوسری طرف مقامی میڈیا کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی نیب خیبر پختونخوا نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں طلب کرلیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ہی نیب کے پی نے مولانا فضل الرحمن کے قریبی ساتھی موسیٰ خان کو بھی آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق انکوائری کے لیے گرفتار کر لیا ہے۔ موسیٰ خان سابق ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر رہے ہیں اور ان کے ایک بیٹے محمد طارق مولانا فضل الرحمان کے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں۔
نیب کیسز کا سامنا کرنے والے اپوزیشن رہنما
پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں احتساب اور کرپشن کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت آئی ہے تو نیب کی طرف سے دو سابق وزرائے اعظم، اور ایک وزیراعلیٰ سمیت درجن بھر سیاسی رہنما گرفتار کیے گئے جن میں سے اکثر اب رہا ہو چکے ہیں۔
تاہم نیب کے ریڈار پر اب بھی درجنوں سیاستدان ہیں جن کے خلاف تحقیقات مختلف مراحل پر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں۔ نیب کیسز کا سامنا کرنے والے مسلم لیگ ن کے رہنماوں میں پارٹی کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کے علاوہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم نواز، حمزہ شہباز، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، مفتاح اسماعیل، خواجہ آصف، کیپٹن صفدر شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پر آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کر ریفرنسز ہیں۔
نیب کیسز کا سامنا کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں میں سابق صدر آصف زرداری ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو، سابق صدر کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیراعظم پرویز اشرف، خورشید شاہ اور آغا سراج درانی شامل ہیں۔
حکومتی رہنماؤں کے خلاف بھی نیب کیسز مگر سست پیش رفت
گو یہ درست ہے کہ نیب نے جتنی تعداد اور تواتر سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اس کا موازنہ ادارے کی حکومتی رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں سے نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ کہنا غلط ہو گا کہ نیب نے کسی بھی حکومتی رہنما کے خلاف انکوائری نہیں کی۔
نیب کے صوبائی دفاتر نے متعدد حکومتی رہنماؤں کے خلاف بھی انکوائریاں کی ہیں اور ان میں چند گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
نیب کے ایک ترجمان کے مطابق اس وقت بھی وفاقی کابینہ کے رکن غلام سرور خان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات جاری ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے سابق وزیر صحت عامر کیانی کے خلاف ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے کیس کے علاوہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کے خلاف وزارت کی عمارت غیر قانونی طریقے سے اپنے دوست کو ہائرنگ پر دینے کے کیسز بھی زیر تفتیش ہیں۔ نیب کے پی میں مالم جبہ کیس پر بھی تحقیقات ہوئیں جس میں مبینہ طور پرسابق وزیراعلیٰ کے پی اور موجود وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا بھی نام ہے۔
تاہم ان تمام کیسز میں کئی ماہ اور مالم جبہ کیس میں کئی سال گزرنے کے باجود نیب کی جانب سے کوئی پیش رفت یا گرفتاری سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے اپوزیشن رہنما یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ احتساب کا عمل یکطرفہ ہے۔