Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکومت کو خطرہ ہے؟ 

اپوزیشن حکومت مخالف تحریک کا آغاز کوئٹہ میں جلسے سے کرے گی۔ فوٹو اے ایف پی
ہمارے ہاں سیاست کا سمندر کبھی ساکت نہیں ہوتا مگر پچھلے کچھ ہفتوں کا تلاطم کافی عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے- آدھی جاگی آدھی سوئی اپوزیشن کو میاں نواز شریف نے جنھجوڑ کر پھر حکومت بلکہ ریاست کے مدِ مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔   
حکومت کی طرف سے بھی جوابی وار کم نہیں ہیں۔ نواز شریف کی تقریر پر پانبدی سے کم از کم ’اندرونی خلفشار‘ کے اندیشوں کو ختم کیا گیا مگر سیاسی ماحول سازش کے مقدمات اور نیب کی گرفتاریوں کے ساتھ بدستور گرم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو کوئی حقیقی خطرہ ہے؟
اپوزیشن کے کمان میں کچھ ہی تیر ہیں، بیانات، انکشافات، استعفے، جلسے اور دھرنے۔ ان میں سے بھی بیانات کا مقابلہ بیانات سے ہو رہا ہے۔ انکشافات کا سلسلہ کچھ تھما ہے اور اگر دوسری طرف سے خاموشی رہی تو پھر اپوزیشن بھی زیادہ راز نہیں کھولے گی۔ استعفوں پر صرف مولانا کا اصرار ہے اور حکومت نے خالی نشستوں پر الیکشن کے اعلان بلکہ دھمکی کے ساتھ استعفوں کے غبارے سے کافی حد تک ہوا نکال دی ہے۔
باقی رہ گئے جلسے اور دھرنے، تو جلسوں پر حکومت کو نہ اعتراض اور نہ ہی پریشانی ہونی چاہیے- نواز شریف کی تقریر پر اعتراض ہو گا اور وہ میڈیا پر نہیں دکھائی جائے گی اس کے علاوہ جلسے کا اثر ایک خاص حد تک ہی ہو گا اور اگر اپوزیشن کی crowd puller مریم نواز دوبارہ گرفتار ہو گئیں تو اثر بالکل محدود ہو کر رہ جائے گا-
رہی بات دھرنے کی تو فی الحال دھرنوں کا جواز ہے نہ ماحول- اگر مولانا کی طرح دس بیس ہزار لوگ اسلام آباد آ بھی گئے تو حکومت نہیں اپوزیشن بند گلی میں ہو گی۔

ستمبر میں ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کے نام سے نیا اتحاد قائم کیا گیا۔ فوٹو ٹوئٹر

حکومت کو البتہ اگر خطرہ ہے تو خود اپنے آپ سے اور اپنی overdoing سے۔ اگر اپوزیشن خصوصاً پنجاب میں ن لیگ اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی (ف) کو روکنے کے لیے کریک ڈاؤن کیا گیا تو حالات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔ ن لیگ پہلے ہی مریم نواز کی پیشی پر شو آف پاور کر چکی ہے اور آگے بھی ایسا ہی ارادہ رکھتی ہے۔
اگر حکومت کی طرف سے معاملہ فہمی نہ دکھائی گئی تو ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ بھی ہو سکتا ہے جس کے بعد مطالبات کی نوعیت ہی بدل جائے گی- 
حکومت کے لیے گورننس اور کارکردگی حقیقی چیلنج ہیں۔ سردیوں کے ساتھ گیس کی لوڈ شیڈنگ کی خبر ہے۔ اشیا ضروریات اور ادویات کی قیمتوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔
دوسری طرف حکومت کے اندر سے سکینڈلز تسلسل سے جاری ہیں۔ وفاقی  کابینہ میں ابھی بھی کسی کی پوزیشن پکی نہیں اور پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ بدستور گلوکوز پر ہی چل رہی ہے۔ لاہور کا کیس ابھی تک حل نہیں ہو سکا اور ایسے مزید واقعات لوگوں کا حکومت پر اعتماد متزلزل کر دیں گے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی 

آخر میں حکومت جتنا اپوزیشن کو اعصاب پر سوار کرے گی اتنا ہی وہ نمایاں ہوتی جائے گی۔ اس سلسلے میں کابینہ کے پرانے تجربہ کار ہوش مند اراکین اور  نئے جوشیلوں میں فرق واضح ہے۔
پرانے لوگوں نے یہ سب دیکھ رکھا ہے اور جانتے ہیں کہ اپوزیشن کا کام ہی ہلہ گلہ اور ہنگامہ ہے۔ مگر جوشیلوں کو خود وزیراعظم کی شہہ ہے جو امور مملکت کے ساتھ ساتھ ہر روز بیانیے کی جنگ بھی جیتنا چاہتے ہیں۔
حکومتی کیمپ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپوزیشن کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کا چیلنج صرف یہ ہے کہ اپوزیشن جس کے پاس احتجاج کا کوئی خاص جواز نہیں، اس کو جوش میں حکومت کوئی حقیقی جواز نہ فراہم کر دے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں