پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کیس میں ایک زندگی شامل ہے۔ عدالت شفاف ٹرائل کو یقینی بنائے گی۔
پاکستان کی تحویل میں فوجی عدالت کی جانب سے سزا پانے والے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کو سزا کے خلاف اپیل کے لیے وکیل کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کو ’عدالتی حکم پر وزارت خارجہ نے انڈین وزارت خارجہ سے رابطہ کیا۔ انڈیا نے اپنے جواب میں اپنا پرانا موقف برقرار رکھا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کلبھوشن کی بریت کی درخواست مستردNode ID: 425931
-
کلبھوشن کیس: انڈیا کو قونصلر رسائی جمعہ کو دینے کا فیصلہNode ID: 427761
-
کلبھوشن جادھو کی انڈین حکام سے ملاقاتNode ID: 431671
انڈیا نے اعتراض اٹھایا ہے کہ پاکستان نے بامعنی قونصلر رسائی نہیں دی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا کلبھوشن جادھو کی سزا سے متعلق فکرمند نہیں ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ' اس کیس میں ایک زندگی شامل ہے، کلبھوشن کو شفاف ٹرائل کا موقع ملنا چاہیے۔'
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا عدالت خود سے کیس کی کارروائی آگے بڑھا سکتی ہے؟ انڈین حکومت اور کلبھوشن جادھو کی مرضی کے علاوہ وکیل مقرر کرنا فائدہ مند نہیں۔
’عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرانا مقصد ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں ہوگا اسی طرح کے کیسز پر فیصلے موجود ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ ہمارا آئین بھی صاف شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے دو مراحل ہیں۔ ہم فیصلے کے پہلے مرحلے پر ہیں۔ پہلا مرحلہ وکیل مقرر کرنا اور دوسرا مرحلہ وکیل کا اپیل دائر کرنا ہے۔عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا کیس عدالت میں پیش کروں گا تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ ہمیں تین سے چار ہفتے کا وقت درکار ہو گا۔'
