Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کلبھوشن کی بریت کی درخواست مسترد

ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف نے پاکستان میں گرفتار ہونے والے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے کہا ہے کہ کلبھوشن کی بریت کی انڈین درخواست مسترد کی جاتی ہے تاہم پاکستان جادھو کی سزائے موت کے فیصلے پر دوبارہ غور کرے۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ دائرہ اختیار سے متعلق پاکستان کے اعتراضات کو مسترد کیا جاتا ہے، اس طرح انڈیا کی درخواست قابل سماعت ہے اور پاکستان کلبھوشن جادھو تک انڈیا کو قونصلر رسائی دے۔
عدالت نے کلبھوشن کی پھانسی کی سزا ختم کرنے کی انڈیا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ’ایسا سمجھنا بھی غلط ہے کہ سزا کا جزوی یا مکمل خاتمہ ہی ویانہ کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی کے کیسز میں واحد اور مکمل ریلیف ہے۔‘ اس لیے عدالت انڈیا کی اس سلسلے میں تمام درخوستوں کو مسترد کرتی ہے۔
عدالت نے متفقہ طور پر اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ عالمی عدالت انصاف کو اس کیس کو سننے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیار کمپلسری سیٹلمنٹ آف ڈسپیوٹ آن قونصلر ریلیشن 1963 کے آپشنل پروٹوکول کے آرٹیکل ایک کے تحت ہیں۔
عدالت نے ایک کے مقابلے میں 15 کی اکثریت سے قرار دیا ہے کہ  انڈیا کی جانب سے دائر درخواست قابل سماعت ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے نمائندے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اس کی مخالفت کی۔

10 اپریل 2017 کو فوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی۔ فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے ایک کے مقابلے میں پندرہ ججز کی اکثریت سے فیصلہ دیا کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو ان کی گرفتاری کے بعد ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی نہ دے کر قانون کی خلاف ورزی کی۔
فیصلہ جج عبدالقوی احمد یوسف نے سنایا۔ فیصلہ سنائے جانے کے وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان وفد کے ہمراہ عدالت میں موجود رہے۔
وفد میں پاکستان کے وکیل خاور قریشی، ڈی جی سارک اور ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل اور دیگر حکام بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن جادھو کیس کی سماعت 18 فروری سے 21 فروری تک جاری رہی تھی۔
18 فروری کو انڈیا نے کلبھوشن کیس پر دلائل کا آغاز کیا اور 19 فروری کو پاکستان نے اپنے دلائل پیش کیے۔
20 فروری کو انڈین وکلا نے پاکستانی دلائل پر بحث کی اور 21 فروری کو پاکستانی وکلا نے انڈین وکلا کے دلائل پر جواب الجواب دیا۔
 سماعت مکمل ہونے کے بعد عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔


10 اپریل 2017 کو پاکستان کی فوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی، تصویر: اے ایف پی

مزید پڑھیں

کلبھوشن کیس کب کیا ہوا؟

مارچ 2016 کو انڈین شہری کلبھوشن جادھو کو پاکستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا گیا۔ 24 مارچ کو پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا کہ کلبھوشن انڈین بحریہ کے افسر اور انڈین انٹیلی جنس ادارے را کے ایجنٹ ہیں۔
 26 مارچ کو حکومت پاکستان نے انڈین ہائی کمشنر کو طلب کر کے ان کے جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔ 29 مارچ کو کلبھوشن جادھو کے مبینہ اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی۔
اپریل 2016 میں کلبھوشن کے خلاف بلوچستان کی حکومت نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کروا دی۔ 10 اپریل 2017 کو کلبھوشن کو فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی۔
10 مئی 2017 کو انڈیا نے کلبھوشن جادھو کی پھانسی کی سزا پر عمل رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کر دی۔
دونوں جانب کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ  کر لیا اور 18 مئی کو عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن جادھو کو پھانسی نہ دی جائے۔
عدالت نے دونوں ممالک کو کیس سے متعلق تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی اور سماعت فروری 2019 تک ملتوی کر دی۔
دسمبر 2017 میں پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بانی پاکستان محمد علی جناح کے یوم پیدائش کے دن کلبھوشن جادھو کی والدہ اور بیوی سے ملاقات کی تجویز دی جسے بھارت نے قبول کیا۔
25 دسمبر کو کلبھوشن کی والدہ اور بیوی پاکستان آئیں اور وزارت خارجہ میں ان کی کلبھوشن جادھو سے ملاقات کرائی گئی۔ کلبھوشن کے خاندان نے اس جذبہ پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ 

انڈیا کیا کہتا ہے؟

انڈیا نے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن جادھو تک سفارتی رسائی دیے جانے کی استدعا کر رکھی ہے۔
انڈیا  کا یہ مؤقف ہے کہ کلبھوشن جادھو پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل کلبھوشن جادھو کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔
 اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن جادھو کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ بھارت نے کلبھوشن جادھو کا مقدمہ فوجی عدالت پر چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا۔ انڈیا کے مطابق ان کی جانب سے اب تک نو مرتبہ سفارتی رسائی کی درخواست کی گئی ہے۔

پاکستان کیا کہتا ہے؟

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کا موقف ہے کہ انڈیا ویانا کنونشن اور دوطرفہ معاہدے کے تحت سفارتی رسائی کی بات کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک میں جاسوس بھیجنا بھی ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ سفارتی رسائی کے معاہدے کے مطابق جاسوسی کرنے والے، ملکی سکیورٹی کے لیے خطرہ بننے والے اور دہشت گردوں کو سفارتی رسائی نہیں دی جا سکتی۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کے مطابق انڈیا کلبھوشن جادھو کی شہریت ہی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ کلبھوشن جادھو کے پاس پاسپورٹ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ہے جبکہ سروس کارڈ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسرکا ہے۔
کلبھوشن جادھو کے پاس اپیل اور نظر ثانی کا حق موجود ہے۔ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن جادھو کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگی گئیں جو کہ بھارت دینے میں ناکام رہا۔
کلبھوشن جادھو کا اعترافی بیان بغیر کسی دباؤ کے ہے۔ اس لیے کلبھوشن جادھو کی بریت، رہائی اور واپسی کا انڈین مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ پاکستانی وکیل نے عدالت میں دستاویزات، خطوط اور میڈیکل رپورٹس بھی پیش کیں۔

کس کی جیت کیسے؟

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ انڈیا نے کلبھوشن جادھو کی بریت اور رہائی کی درخواست دے رکھی ہے اور اگر عالمی عدالت انصاف اسے بری یا رہا کرنے کا حکم جاری نہیں کرتی تو یہ پاکستان کی جیت ہوگی اور اگر ایسا ہوا تو یقیناً انڈیا جیتے گا۔ ان کا کہنا کہ پاکستان نے اپنا مقدمہ بہتر انداز میں لڑا اور امید ہے کہ فیصلہ بھی ہمارے حق میں آئے گا۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد

کیا پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہے؟ اس پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ٹریٹی اور چارٹر میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے اس فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کلبھوشن کیس پر اخراجات



پاکستان کے وکیل خاور قریشی عالمی عدالت انصاف میں کیس کی سماعت کے دوران، فائل فوٹو: روئٹرز 

عالمی عدالت انصاف اور اسی طرح کے دیگر فورمز پر چلنے والے مقدمات میں وکلا کی فیسوں کی مد میں حکومت پاکستان سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ 2018 کی بجٹ دستاویزات کے مطابق پاکستان نے اپنے وکیل خاور قریشی کو 20 کروڑ روپے ادا کیے تھے۔
پاکستانی وفد کے متعدد بار کے سفری و رہائش کے اخراجات اور معمول کے ٹی اے ڈی اس کے علاوہ ہیں۔ 

شیئر: