سعودی عرب نے آمدنی میں توازن کیسے برقرار رکھا؟
مارچ میں سعودی عرب 267ارب بیرل تیل کے ذخائر کی بدولت دنیا میں دوسرے نمبر پر آگیا: فائل فوٹو
سعودی عرب نے تیل منڈیوں میں بحرانوں کے باوجود آمدنی میں توازن برقرار رکھا ہے۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ کام کس طرح ممکن ہو سکا۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق 2014 کی پہلی ششماہی میں ایک بیرل تیل کے نرخ سو سے ایک سو دس ڈالر کے درمیان تھے جبکہ 2020 میں تیل کے نرخ ریکارڈ حد تک کم ہو گئے۔
اپریل میں خام امریکی تیل کے نرخ زیرو سے منفی میں چلے گئے تھے۔
اس دوران تیل کی مارکیٹوں میں زبردست اتار چڑھاؤ آیا۔ نرخوں میں کمی کا اثر تیل آمدنی پر بھی پڑا۔
سعودی عرب، روس اور وینیزویلا کی قومی آمدنی تیل نرخوں میں زبردست کمی سے متاثر ہوئی البتہ سعودی عرب اس دوران جب کہ اس کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تیل تھا اپنی معیشت کو وژن 2030 کی بدولت تیل نرخوں میں کمی کے اثرات سے بچانے میں کامیاب رہا۔
وژن 2030 نے مملکت میں آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کیے اور قومی بجٹ کے لیے آمدنی کے نئے وسائل کھڑے کر دیے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 25 اپریل 2016 کو سعودی وژن کا اعلان کیا تھا۔
سعودی عرب نے گذشتہ چار برسوں کے دوران تیل کے نرخوں میں گراؤٹ سے رونما ہونے والے بحرانوں کا مقابلہ اسی وژن کے ذریعے کیا ہے۔
دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے معاشی بحران پیدا کیے۔ کئی ملکوں کی معیشت ٹھپ ہوگئی۔ تیل کے نرخ ریکارڈ حد تک کم ہوگئے۔
جاپانی ماہرین نے ایک جائزے میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ سعودی عرب نے قومی آمدنی میں توازن کیسے پیدا کیا۔ اس جائزے کا عنوان ’سعودی مالیاتی نظام، تیل پر عدم انحصار کے متحرک‘ ہے۔
جاپانی جائزہ نگارو ں نے بتایا ہے کہ وژن 2030 کے بعد سعودی عرب میں تیل کے ماسوا ذرائع سے آمدنی 78.7 فیصد بڑھ گئی۔
پہلے ان ذرائع سے 186 ارب ریال آمدنی ہورہی تھی وژن کے بعد 332.4 ارب ریال تک پہنچ گئی۔ چار برس کے دوران 22 فیصد سالانہ اوسط اضافہ ہوا ہے۔