جسٹس فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’نجی تقاریب کا وزیراعظم کے سرکاری اقدامات سے کوئی تعلق نہیں۔‘
اس حکم نامے کے تحت سپریم کورٹ نے پیمرا سے کنونشن سینٹر میں ہونے والی تقریب کی ریکارڈنگ طلب کر لی ہے۔ پیمرا سے کہا گیا ہے کہ آگاہ کیا جائے تقریب میں کس نے کیا خطاب کیا اور یہ کتنی بار ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی؟
عدالت نے اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کر دیے ہیں جبکہ معاونت کے لیے پنجاب بار کونسل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
پیر کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں وزیراعظم عمران خان کی کنونشن سینٹر میں وکلا کی تقریب کا ذکر ہوا تو انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے عدالت میں پیش ہونے کے بجائے وکلا کنونشن میں بیٹھنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ایڈووکیٹ جنرل پورے صوبے کا ہوتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے؟ وزیراعظم پاکستان پورے ملک کے وزیراعظم ہیں یا کسی ایک پارٹی کے؟ وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کر رہے ہیں؟‘
جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا کنونشن سینٹر میں وکلا کی تقریب میں وزیراعظم شرکت کر سکتے ہیں؟ بظاہر کنونشن میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی۔ وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی، وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کر رہے ہیں؟ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک وکلا ونگ ہے، آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ وزیراعظم ملک کے ہر فرد کے وزیراعظم ہیں، وزیراعظم کا رتبہ بہت بڑا ہے، یہ تقریب کسی نجی ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی، تقریب کے لیے ٹیکس دینے والوں کے وینیو کا استعمال کیا گیا۔ نجی تقریب کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کیسے کیا گیا؟
عدالت نے معاملے کی وضاحت اور قانونی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے انچارج کنونشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے معاملے پر بینچ تشکیل دینے کے لیے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس کو ارسال کرنے کی ہدایت کی۔