آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حراست میں لیا گیا تھا (فوٹو اے ایف پی)
انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو منگل کی رات تقریبا 14 ماہ کی نظر بندی کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔
پچھلے سال اگست میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حکومت نے محبوبہ مفتی کو حراست میں لیا تھا بعد ازاں پبلک سیفتی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں توسیع کی جاتی رہی۔
یاد رہے پبلک سیفٹی ایکٹ بغیر مقدمہ چلائے تین ماہ تک نظر بندی اور اور میں متعدد مرتبہ توسیع کی اجازت دیتا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر کے پرنسپل سیکریٹری روہت کنسال نے منگل کی رات 9 بجکر 17 منٹ پر ٹوئٹ کیا کہ’ محبوبہ مفتی کو رہا کیا جا رہا ہے‘۔
سابق وزیر اعلی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی والدہ کی ’غیر قانونی نظر بندی’ کو سپریم کورٹ نے چیلنج کر رکھا ہے۔ عدالت نے حکومت کو جواب دینے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی تھی یہ مہلت ختم ہونے سے پہلے سابق وزیر اعلی کو رہا کیا گیا ہے۔
29 ستمبرکو درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے مرکز اور کشمیر حکومت سے سوال کیا تھا کہ ’محبوبہ مفتی کو کب تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے‘۔ انتظامیہ کو جواب کے لیے 14 اکتوبر تک کا وقت دیا گیا تھا۔
محبوبہ مفتی کی رہائی کے کچھ دیر بعد ان کی بیٹی التجا مفتی جنہو ں نے والدہ کی نظر بندی کے بعد ان کا ٹوئٹر اکاونٹ سنبھال لیا تھا ٹوئٹ کیا ’محبوبہ مفتی کی ’غیر قانونی نظر بندی‘ آخر کار ختم ہوئی۔ میں ہر ایک کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جہنوں نے اس مشکلہ وقت میں میرا ساتھ دیا۔ میں آپ سب کی شکر گزار ہوں‘۔
رہائی کے بعد ٹوئٹر پر اپنے آڈیو پیغام میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ میں آج ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد رہا ہوئی ہوں۔ اس دوران پانچ اگست 2019 کے ’کالے دن کا کالا فیصلہ‘ ہر پل میرے دل اور روح پر وار کرتا رہا اور مجھے احساس ہے کہ یہی کیفیت جموں وکشمیر کے عوام کی ہوگی۔ ہم میں سے کوئی شخص اس دن کی ’ڈاکہ زنی‘ اور‘ بے عزتی‘ کو قطعا بھول نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم سب کو اس بات کا اعادہ کرنا ہوگا کہ جو ’دلی دربار‘ نے پانچ اگست کو غیر آئینی، غیر جمہوری، غیر قانونی طریقے سے ہم سے چھین لیا اسے واپس لینا ہوگا بلکہ اس سے ساتھ مسئلہ کشمییر جس کی وجہ سے جموں وکشمیر میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں اس کو حل کرنے کے لیے ہمیں اپنی جدو جہد جاری رکھنی ہوگی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں مانتی ہوں کہ’ یہ راہ قطعا آسان نہیں ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم سب کا حوصلہ اور عزم یہ دشوار راستہ طے کرنے میں ہمارا معاون ہو گا‘۔
سابق وزیراعلی نے یہ بھی کہا ’ آج جب کہ مجھے رہا کیا گیا ہے میں چاہتی ہوں کہ جموں و کشمیر کے جتنے بھی لوگ مختلف جیلوں میں بند پڑے ہیں انہیں بھی جلد از جلد رہا کیا جائے‘۔