پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپوزیشن جماعتوں کے پہلے جلسے سے خطاب میں سابق وزیراعظم نواز شریف، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے اپنے خطاب میں موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں حقیقی جہموریت کو ہر صورت بحال کیا جائے گا۔
جمعے کو جلسے سے سابق وزیراعظم نواز شریف جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے تلخ لہجے میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو لانے والوں کو ضرور جواب دینا ہو گا۔‘
انھوں نے اپنی تقریر میں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو دہراتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین کو توڑنے والے محب وطن ہیں اور اس وقت جلسہ گاہ میں سٹیج پر موجود ملک کی سیاسی قیادت غدار ہے۔
انھوں نے نیب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آمر کا بنایا ہوا قانون سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو رہا ہے لیکن موجودہ سیاسی اتحاد پی ڈی ایم عوام کے ووٹ کو عزت دلا کر رہے گا۔
سابق وزیراعظم نے عاصم باجوہ کو بھی ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ان کے اثاثے سامنے آ چکے ہیں لیکن کوئی تفتیش شروع نہیں ہوئی اور اس حکومت کے ہوتے ہوئے ہو بھی نہیں سکتی۔‘

نواز شریف کے خطاب کے بعد ان کی بیٹی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز جلسے سے اپنا خطاب پنجابی میں شروع کرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ کی عوام۔۔۔۔ میرا خیال تھا آج کام شروع ہوا ہے لیکن آپ نے کام ختم کر دیا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں جلسہ گاہ میں موجود کارکنوں سے کہا کہ وعدہ کریں کہ وہ اپنے ووٹ کا حساب لیں گے۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ’ آج کے جلسے میں آپ کے سامنے آئین کا مقدمہ رکھا ہے کیونکہ آپ کے ووٹوں سے حکومتیں آنی چاہییں، آپ کے ووٹوں سے حکومتیں جانی چاہییں، اور کسی کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ منتخب وزیراعظم کو دفتر سے اٹھا کر باہر پھینکے۔‘
مریم نواز کے بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری جلسے سے خطاب میں مہنگائی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج متوسط طبقے کا جینا محال ہو گیا ہے۔۔۔ کیا اسے تبدیلی کہتے ہیں؟

انھوں نے کہا یہ کس قسم کی آزادی ہے جہاں نہ عوام آزاد، نہ صحافت آزاد اور نہ ہی سیاست آزاد ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن اتحاد میں شامل رہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب ایک پیج پر ہیں اور اب عمران خان کے گھبرانے کا وقت آ چکا ہے کیونکہ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔‘
بلاول بھٹو زرداری نے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وسیم اکرم پلس کے اقتدار میں ہر چیز مائنس میں ہے۔
جلسے کے اختتام پر ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک اب چل پڑی ہے جو اس وقت تمھے گی جب ملک میں آئین کی بالادستی ہو گی، سیاست میں اداروں کی مداخلت ختم ہوگی، ادارے اپنے جرم تسلیم کر لیں۔۔ اس کے بغیر معاملات اب طے نہیں ہو سکتے ہیں۔ ‘
انھوں نے کہا کہ ’ہماری طرف سے کوئی جھگڑا نہیں۔۔ جب بھی مداخلت ہوئی ہے اداروں کی طرف سے ہوئی ہے۔۔ ادارے کیوں عوام کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ تصادم سے ملک نہیں چلا کرتے۔‘
جلسے سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی اور میاں افتخار حسین نے خطاب کیا۔

جلسے میں شرکت کے لیے دوسرے شہروں سے اپوزیشن جماعتوں کے کارکن بھی سٹیڈیم پہنچے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے گذشتہ ماہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملک بھر میں حکومت کے خلاف احتجاجی پروگرام کی منظوری دی تھی جس کے تحت پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں ہو رہا ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کو جمعرات کے روز باضابطہ طور پر جلسے کی اجازت دے دی تھی۔

مزید پڑھیں
-
پاکستان کی سیاست میں کون سے کارڈز کھیلے جاتے ہیں؟Node ID: 509951
-
’اپوزیشن نے قانون توڑا تو جیل ہوگی‘Node ID: 510121
-
پی ڈی ایم کو جلسے کی اجازت، ’وہ کیا لمحہ ہوگا جب۔۔۔‘Node ID: 511276
جلسہ انتظامیہ کے مطابق جلسہ گاہ میں 10 ہزار کرسیاں لگائی گئی ہیں جبکہ پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
گوجرانوالہ سے مقامی صحافی احتشام شامی کے مطابق جناح سٹیڈیم میں کورونا کی وجہ سے جلسے کے شرکا کے لیے کرسیاں اس طرح لگائی گئی ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہو۔ شہر میں مخلتف راستوں پر کنٹینرز بھی لگائے گئے ہیں۔ جلسے کے آغاز کے لیے نماز جمعہ کے بعد تین بجے کا وقت دیا گیا تھا۔
قائدین کے سٹیج کے علاوہ میڈیا کے لیے ایک الگ سٹیج بنایا گیا ہے جبکہ ڈی جے بٹ کارکنوں کے لیے نغمے چلا رہے ہیں۔ جناح سٹیڈیم کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازے سے قائدین، ایک سے میڈیا جبکہ تین سے کارکن جلسہ گاہ میں داخل ہوئے۔
جلسہ گاہ میں ایک دروازہ خواتین کارکنوں کے لیے بھی مختص کیا گیا۔ جلسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا۔ پولیس کے دو ہزار کے لگ بھگ اہلکار سکیورٹی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
جلسے کے آغاز سے قبل ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل اشرف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کورونا کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں اور کرسیاں فاصلے سے رکھنے کے اقدام کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں جلسے کے شرکا کے لیے سات جگہوں پر پارکنگ کا انتظام کیا گیا اور شہر میں ٹریفک جاری رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سیاسی اعتبار سے اہم جلسے کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بیان بازی بھی جاری رہی۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گِل نے جمعہ کو اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ گوجرانوالہ کے جلسہ میں حکومت جلسہ گاہ میں آنے والے افراد کو پینے کا صاف پانی، ماسک اور ہینڈ سینیٹائزرز مہیا کرے گی۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’اپوزیشن نے گوجرانوالہ سٹیڈیم بھرنا تھا، آدھا سٹیڈیم چھوڑ کر سٹیج لگایا، پہلے ہی گنجائش 30 ہزار تھی جو اب صرف 20 ہزار رہ گئی ہے۔ اتنی جماعتیں مل کر بھی ناکامی کے خوف کا شکار ہیں، یہ عمران خان ہی تھا جس نے مینار پاکستان کا گراؤنڈ بھی بھر دیا تھا۔ ان سب سے مل کر بھی اس کا آدھا بھی نہیں ہونا۔‘
