پی ڈی ایم تیسرے جلسے کے بعد آگے جلسوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سیاست کے ٹمپریچر جس میں نواز شریف کی احتجاجی سیاست میں انٹری سے ہلچل ہوئی وہ بدستور اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس میں کچھ کردار سٹیج سے ہونے والی تقریروں کا ہے اور کچھ کردار اس رد عمل کا ہے جو ان جلسوں کے پس منظر اور پیش منظر میں حکومت کی طرف سے دیا گیا ہے۔
یہی رد عمل تھا جس کے نتیجے میں ایک پورے صوبے کی پولیس نے کام چھوڑ کر چھٹی پہ جانے کا اعلان کر دیا۔ اب حکومت کے وزرا کی طرف سے کھل کر لفظی گولہ باری عروج پر ہے۔
مزید پڑھیں
-
نواز شریف کا سرپرائز!Node ID: 512016
-
آرمی چیف نے کراچی واقعے کا نوٹس لے لیا، انکوائری کا حکمNode ID: 512381
-
’فاطمہ جناح زندہ باد‘Node ID: 512841
اس بڑھتے ہوئے ٹمپریچر میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ احتجاج جو اب کھلی محاذ آرائی میں بدل گیا ہے آخر کہاں تک جائے گا؟ دونوں فریقوں میں سے بقول انگریزی محاورہ پہلے پلک کون جھپکے گا (who will blink first)؟
مسلم لیگ ن کا فی الحال پلکیں جھپکنے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا۔ نواز شریف لندن میں سکون سے واک اور ٹاک میں مصروف ہیں۔
حکومت کے دعوے اپنی جگہ مگر قانونی اور سیایسی دونوں پہلوؤں سے ان کی واپسی یا حوالگی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا پر ہفتہ وار تقریر میں اگرچہ یکسانیت آتی جا رہی ہے مگر اس کا اثر بدستور رہے گا۔
پاکستان میں مریم نواز کے علاوہ مسلم لیگ ن کی قیادت احتیاط سے نواز شریف کے بیانیے سے کھلا اختلاف کیے بغیر ادھر ادھر رسمی بیانات دے کر بچنے میں مصروف ہے۔ قیادت کی کمی البتہ مریم نواز پوری کر رہی ہیں۔ کوئٹہ میں نہ صرف ان کی تقریر بلکہ ان کے لباس سے لے کر ان کی لاپتہ افراد کے ساتھ تصویر کھنچوانے تک، سارے عمل کھلا اور واضح طبل جنگ تھا۔
ہر جلسے کے ساتھ ان کی تقریریں سیاسی ٹمریچر بڑھائیں گی۔ اور بات اب صرف تقریر تک محدود نہیں، ان کی دیگر سیاسی سرگرمیاں وقت کے ساتھ خبروں کا مرکز رہیں گی۔ چاہے وہ لاہور میں طالب علموں کے ساتھ یک جہتی ہو یا ایک صحافی کی گمشدگی پر سوشل میڈیا پر اجتجاج، وہ آگے بھی اپنی موجودگی محسوس کرانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیں گی۔
اب صرف ایک ہی چیز مریم نواز کی سرگرمیاں روک سکتی ہے اور وہ ہے گرفتاری۔
نیب کے کیس میں گرفتاری زیادہ دیر پا ہوتی ہے اس لیے زیادہ امکان بھی اسی کا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مریم نواز کو گرفتار کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن پر بھی کریک ڈاؤن کا امکان ہے۔ کیا پارٹی اس کے بعد تحریک کی صورت میں رد عمل دے گی یا صرف بیانات تک ہی محددو رہے گی؟
دوسری طرف پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ تو کھڑی ہے مگر سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ اب گلگت بلتستان کی حکومت کو بھی دیکھ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے پاس اگرچہ کھونے کو کچھ نہیں مگر وہ بھی تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے رہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے دوسرا فریق کب اپنا اگلا فیصلہ کرے گا۔
اگرچہ نیب کے کیس موجود ہیں مگر حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ اسی نظام میں گنجائش بھی نکل سکتی ہے۔ آخر ابھی کچھ ہفتے پہلے تک نواز شریف مکمل بیمار اور مریم نواز مکمل خاموش تھیں۔ ووٹ کی عزت کی جدوجہد میں اشتہاروں کا وقفہ تھا اور مسلم لیگ ن کی قیادت بھی ایک صفحے کا کونہ پکڑ کر پارلیمنٹ میں سرگرم تھی۔
اب ماحول یکسر بدل چکا ہے مگر اس کا یہ بھی سبق ہے کہ ماحول دوبارہ بھی بدل سکتا ہے، صرف کسی ایک فریق کے پلک جپھکنے کی دیر ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں