Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسان ہی انسان کا دشمن ہو تو کیا نظم، کیسا ضبط

 
حکومت ، حکمران اور رہنما ایسے درخت ہیں جن کا سایہ دار ہونا نہایت اہم ہے
 
تسنیم امجد۔ ریاض
 
معاشرتی بدامنی ، انتشار، افراتفری، نفرت اور معاشی بدحالی اسقدر تجاوز کرچکی ہے کہ انسانی دماغ کوبھی عصبی سرگرمیوں کو رواں رکھنے کے لئے درکار میٹابالزم حسب ضرورت نہیں مل رہا ۔ خیر یہ سائنسی تفصیل طویل ہے ، یہاں ہمیں عوام کی قانون شکنی کھَل رہی ہے جبکہ قوانین منظم زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔اکثر لوگ تاویل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب ہم قانون کے ذمہ داروں کوقانون شکنی کرتے دیکھتے ہیں تو پھران کی طرح ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ ایک خوانچہ فروش کا کہنا ہے کہ غربت، دو وقت کی روٹی کی فکر اور آپادھاپی کے ماحول میں ہمیں قوانین توڑنے ہی پڑتے ہیں ۔صاحبانِ اختیار جانتے ہیں کہ عوام جھنجلاہٹ کا شکار کیوں ہیں،اولادوں کو کیوں فروخت کررہے ہیں، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیوں ہیں ، مسائل ایک ایسے جن کی مانند ہیں جسے کسی بوتل میں بند کرنے کا سوچا ہی نہیں جارہا ، پھر ہم سے احترام قانون کی امید عبث ہے کہ نہیں ؟ 
ماضی میں قانون شکنی کا تناسب اس حد تک نہ تھا لیکن اب تو گویااسے زندگی کا حصہ تسلیم کیا جاچکا ہے۔ قانون کے محافظ جب خود قانون شکنی اور بدعنوانی کا راستہ اختیار کرلیں تو معاشرے کا حُسن گہنا جاتا ہے۔احترام انسانیت وہ بنیادی انسانی فریضہ ہے جسے نظر انداز کرنے والا نہایت ناپسندیدہ شخص قرار پاتا ہے۔ حکومت ، حکمران اور رہنما ایسے درخت ہیں جن کا سایہ دار ہونا نہایت اہم ہے کیونکہ راہ راست کا سبق انہی کے سائے تلے پڑھایا اور سکھایاجاتا ہے۔ ہمارے سفر کو شروع ہوئے 6دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن ہم عالم ِ بے چارگی میں جینے پر مجبور ہیں۔ کاش ہم یکجہتی کا دامن تھام کر منزلوں تک رسائی کی کوشش کریں۔ قوانین کو مدنظر رکھ کر منظم اندازِ حیات اپنائیں۔ 
میڈیا کی وساطت سے عوام سے التماس ہے کہ نہ ہی اپنی زندگیوں کو داﺅ پر لگائیں اور نہ ہی قانون شکنی کے عوض خود کو تماشا بنائیں ، عدالتوں اور جیلوں کے چکر دو وقت کی روٹی بھی چھین لیتے ہیں۔ خوداپنا احتساب کریں ، مت دیکھیں کہ محافظ کیا کررہے ہیں۔ اپنے فرائض کی بجاآوری ضروری ہے ۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں راستے یعنی سڑکیں نہایت اہم ہیں۔ روزمرہ کی زندگی انہی کی بدولت سانس لیتی ہے۔ اکثر شکایت سنی جاتی ہے کہ دفتر سے، کالج سے یایونیورسٹی سے واپسی پردیر ہوگئی یعنی تاخیر سے پہنچے اور ذہنی کرب سے گزرے۔ عمدہ راستے یعنی سڑکیں وقت کی بچت کا باعث بنتی ہیں، ان سے فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کا اندازہ مواصلاتی نظام کی بہتری سے لگایا جاتا ہے ،اس کی بدولت یکجہتی بھی ممکن ہوجاتی ہے۔ اگر راستے آسان ہوںتو ذہن و دل پر اس کے انتہائی مثبت و خوشگوار ا ثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میںتعمیر شدہ شاندار سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم پانی میں بہاﺅ کے رُخ پر تیر رہے ہیں۔ صنعتی علاقوں کے نزدیک موٹروے تعمیر کیا جائے تو تاجروں اور خریداروں ، دونوں کے لئے آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ 
ہمارے ہاں اکثر سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔انہیں بہتر کیا جاسکتا ہے مگر انہیں ہم خود اپنی ہٹ دھرمی سے ناکارہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رب العزت نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے ، ہم جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کرتے ۔ حکومت بنانے اور پھر چلانے والے عوام ہی ہیں جنہیں انفرادی طور پر چاق و چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔ وطن بھی گھر ہی ہے جو بالکل ویسی ہی توجہ چاہتا ہے جیسی اپنے گھر پر دی جاتی ہے۔
شاہراہیں اور پل وغیرہ کسی بھی ملک کی اقدار کی ترجمانی کرتے ہیں، ہماری معیشت زرعی ہے اس لئے بھی ہماری گزرگاہوں کو ہر رکاوٹ سے صاف ہونا چاہئے تاکہ زراعت کے لئے اہم ضروریات کی فراہمی جلد سے جلد ممکن بنائی جا سکے۔ ہمارے عوام میں شعوربیدار ہونا چاہئے۔ اس کے لئے تعلیم اور خصوصی طور پر اخلاقی تعلیم بہت ضروری ہے جس کی ابتداءگھر کے ماحول سے ہی ہونی ممکن ہے ۔ انسان صالح اطوار کا حامل ہونے کے ساتھ بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ ہم مسلمان تمام اُمتوں سے افضل ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہماری زندگیاںعز و شرف کی آئینہ دار ہوں۔آج اسلام سے ہماری عملاً دوری کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے روگ معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ بے راہ ہونے کی وجہ سے ہم صرف اپنا فائدہ مدنظر رکھ رہے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر انسان ہی انسان کا دشمن ہو جائے تو کیا نظم اور کیسا ضبط ؟
ہمارے رویے حدودسے تجاوز کررہے ہیں ۔ یہ امر افسوس ناک ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے گمراہ کن حالات سے باہر نکل کر محبت و اخوت کے بیج بونے چاہئیں۔ اسلام نے زندگی کے جو آداب و اندازتعلیم فرمائے ہیں وہ تمام نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں ۔ اسلام کا ہر رکن نظم و ضبط کا مظہر ہے بغیر کسی لالچ کے اس پر عمل کرنے سے زندگی بے ڈھب و بے ترتیب نہیں رہتی۔ قناعت کی دولت مزاج کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر آپا دھاپی والا مزاج بھی نہیں رہتا ۔ افراتفری خانگی زندگی سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ اس لئے اس پرخاص توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ حالت بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔
****** 

شیئر: