حکومت پاکستان نے آئندہ ایک سے دو برس کے دوران بیرون ملک بھیجے جانے والے والے ورکرز کی تعداد سالانہ آٹھ لاکھ تک پہنچانے اور ترسیلات زر سالانہ 30 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف طے کیا ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق اس وقت پاکستان بیورو آف امیگریشن کے ساتھ رجسٹرڈ بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کی تعداد 80 لاکھ 60 ہزار ہے۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکہ اور جنوبی افریقہ میں پاکستانی ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستانیوں کے لیے پانچ ممالک میں ملازمتوں کی تجویزNode ID: 514161
-
او پی ایف ہاؤسنگ: دہائیوں بعد پلاٹس مالکان کے حوالےNode ID: 515186
-
’بیرون ملک پاکستانی، 23.18 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ پورا کیا‘Node ID: 515686
سعودی عرب اب بھی پاکستانی ورکرز کی سب سے پہلی منزل ہے جہاں 27 لاکھ، 14 ہزار 684 پاکستانی ورکرز موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات 16 لاکھ پاکستانیوں کی میزبانی کے ساتھ دوسرے اور بحرین، قطر اور عمان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیسرے نمبر پر آگیا ہے جبکہ برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا بالترتیب تیسرے چوتھے اور پانچویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی ورکرز کی تعداد 11 لاکھ 75 ہزار، امریکہ میں 10 لاکھ جبکہ کینیڈا میں تین لاکھ 50 ہزار ہے۔
عمان دو لاکھ 44 ہزار 866، جنوبی افریقہ دو لاکھ، قطر ایک لاکھ 40 ہزار، اٹلی ایک لاکھ 30 ہزار 593 اور فرانس ایک لاکھ 20 ہزار پاکستانی ورکرز کی میزبانی کے ساتھ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہیں۔
ان ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، بحرین، جرمنی، کویت اور سپین ان ممالک میں شامل ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی ورکرز موجود ہیں۔
مولڈووا میں سب سے کم پاکستانی ورکرز موجود ہیں جن کی تعداد صرف پانچ ہے۔ کیوبا میں سات، ہیٹی اور ہنڈراس میں نو نو جبکہ بارباڈوس میں 10 پاکستانی ورکرز کام کر رہے ہیں۔

ان کے علاوہ 33 ممالک ایسے ہیں جہاں پاکستانیوں کی تعداد 100 سے کم ہے۔
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام نے بتایا ہے کہ ’رواں سال کورونا کی وجہ سے بہت کم پاکستانی ورکرز بیرون ملک جا سکے ہیں، پھر بھی کوشش ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ تعداد دو لاکھ 25 ہزار، اگلے سال چار لاکھ اور اس سے اگلے سال آٹھ لاکھ تک پہنچ جائے۔‘
’اس مقصد کے لیے سفارتی کوششوں کے ذریعے بیرون ملک ملازمتوں کے لیے نئی مارکیٹس تلاش کی جائیں گی۔ جرمنی، جاپان، کینیڈا، آسٹریا، رومانیہ، اور ڈنمارک جیسے ممالک میں پاکستانی ورکرز کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ ’اس وقت آٹھ ایسے ممالک ہیں جن کے لیے سالانہ ایک ہزار سے زائد پاکستانی ورکرز رجسٹر ہوتے ہیں۔ اس تعداد کو اگلے ایک سال میں 12 ممالک اور دو سے تین سال کے عرصے میں 20 ممالک تک لے کر جانے کا ارادہ ہے۔‘

حکام کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ایسے ممالک جہاں پر پاکستانی ورکرز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے ان کو بیورو آف امیگریشن کے آن لائن جاب پورٹل کے ساتھ لنک کیا جائے گا تاکہ ریکروٹمنٹ کے عمل میں مزید شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
حکام کے مطابق ’وزارت سمندر پار پاکستانیز نے بیرون ملک مقیم ورکرز کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ نئے جانے والے ورکرز کو ہنر سکھانے کے حوالے سے ’نیوٹیک‘ اور ’ٹیوٹا‘ کے کردار کو بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
’اس مقصد کے لیے جدید نصاب کی تیاری، نمل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر غیر ملکی زبانیں سکھانے کے کورسز سمیت کئی دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
وزارت کے حکام نے بتایا کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کی شکایات کی روشنی میں تمام ممالک میں تعینات کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے پرفارمنس آڈٹ کروایا جا رہا ہے۔‘

’یہ جائزہ دسمبر 2020 تک مکمل ہو جائے گا اور رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔ اس جائزے میں کی گئی سفارشات کی روشنی میں مزید اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے۔‘
حکام کے مطابق ’ملک میں ایسے اقدامات اور قانون سازی کی جا رہی ہے جس سے رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران نو ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر آئی ہیں جن کو سال کے آخر تک 24 ارب ڈالر اور اگلے دو سے تین سال میں 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔‘
’اس مقصد کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے اجرا کے علاوہ نیشنل ریمیٹینس لائلٹی پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز رقوم کی پاکستان منتقلی کے لیے قانونی ذرائع ہی استعمال کریں۔‘
حکام نے بتایا ہے کہ ’صرف بیرون ملک ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی سمندر پار پاکستانی ورکرز کو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔‘
