ہیلری کلنٹن کی طرف سے ’سوری‘ کہنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاملات بہتر ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
64 سالوں میں ایسا شاید پہلی بار ہوا تھا کہ خیبر سے کراچی تک پاکستان کے عوام، افواج اور پارلیمنٹ ایک اتحادی کے خلاف یک زبان ہو کر معافی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پہلی بار پاکستان نے امریکہ کو کھل کر للکارا تھا۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ پاک افغان بارڈر پر 26 نومبر2011 کی رات قریب دو بجے سلالہ چیک پوسٹ پر تعینات پاکستانی فوجیوں نے ایک ایسے مقام پر نقل و حرکت دیکھی جو ماضی میں طالبان شدت پسندوں کی آمدورفت کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق پاکستانی پوسٹ کے کمانڈر نے یہ نقل و حرکت دیکھتے ہی گولی چلانے کا حکم جاری کر دیا کیونکہ اس طرح کی صورتحال کے لیے فوجی کمان کو یہی طریقہ کار اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
پاک افغان سرحد پر پاکستان کی چیک پوسٹیں اونچی پہاڑیوں پر قائم تھیں جہاں سے سرحد کے دونوں اطراف آمدورفت کی نگرانی ہوتی تھی۔
تاہم اس فائرنگ کے چند منٹ بعد ہی امریکی ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں نے سلالہ میں دو چیک پوسٹوں پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے بگرام ایئر بیس پر رابطہ کر کے امریکی فوجی حکام کو سرحدی خلاف ورزی سے آگاہ کیا گیا، تاہم امریکی فورسز نے دو گھنٹے تک کارروائی جاری رکھی۔ اس اچانک امریکی حملے میں دو افسروں سمیت 26 پاکستانی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستانی فوجی پوسٹ پر سے جنہیں مشتبہ شدت پسند سمجھ کر فائرنگ کی گئی وہ افغان فوج کی پٹرولنگ پارٹی تھی۔
اس حیرت انگیز اور خونی امریکی حملے نے پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین اس وقت کور کمانڈر پشاور تھے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکی حملہ نہایت بیہمانہ اور بلاجواز تھا جس نے پاکستانی فوج میں بھی غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔
ان کے مطابق سلالہ واقعے نے پاکستان امریکہ تعلقات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔
’جب اپنے دوست آپ کے بندے مار جائیں تو کہاں کی دوستی اور کہاں کا تعلق۔ عشروں سے قائم پاکستان اور امریکہ تزویراتی اتحاد اس لمحے زیرو پر آ گیا تھا۔
کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین نے اطلاع فورا ہائی کمان کو پہنچائی اور رات کے پچھلے پہر ہونے والے واقعے پر صبح نو بجے تک پاکستان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اپنی سرزمین سے نیٹو کی سپلائی لائن معطل کر دی۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دفاعی کمیٹی نے 15 دنوں میں امریکہ کو شمسی ایئر بیس خالی کرنے کا حکم دیا۔
واقعے کے بعد ملک بھر میں دفاع پاکستان کونسل کے زیرانتظام مذہبی جماعتوں کے مظاہرے بھی شروع ہو گئے اور عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ امریکہ پاکستان سے معافی مانگے۔
پاکستان کی طرف سے نیٹو کی سپلائی کی بندش اور شمسی ایئر بیس خالی کروانے اور اس طرح کے دیگر فیصلوں کا امریکہ کو نقصان ہونا شروع ہو گیا۔ اپنے فوجیوں تک خوراک، اسلحہ وغیرہ پہنچانے کے لیے امریکہ کو وسطی ایشیا کا مہنگا روٹ استعمال کرنا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے جنرل آصف یاسین کے مطابق امریکہ کو آٹھ ماہ میں تقریبا چھ سے سات ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
’یہ پاکستان کا ایک بہت اچھا قدم تھا جس نے ثابت کیا کہ ہم اس طرح کے بڑے فیصلے خود سےکر سکتے ہیں۔‘
گو کہ بظاہر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات سے بھی انکار کیا اور اپنا موقف یہی رکھا کہ حملہ دفاع میں کیا گیا ہے کیوں کہ افغان صوبے کنٹر میں اتحادی فوج پر حملہ ہوا تھا اور نیٹو فورسز نے زمینی فوج کی درخواست پر چیک پوسٹ پر حملہ کیا تاہم نیٹو سپلائی کی پاکستان کے سستے روٹ سے بحالی کے لیے اندرون خانہ کسی حل کی تلاش بھی شروع کر دی گئی۔
امریکی صدر اوبامہ نے ابتدائی رضامندی کے بعد بھی معافی کیوں نہیں مانگی؟
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین نے تمام حالات کو بہت قریب سے دیکھا ہے کیونکہ وہ اس دن متعلقہ کور کمانڈر تھے اور واقعے کے چند ماہ بعد پاکستان کے سیکرٹری دفاع تعینات ہو گئے تھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اس وقت کی سیاسی قیادت کی نااہلی تھی کہ امریکی صدر باراک اوبامہ پاکستان سے معافی مانگتے مانگتے رہ گئے۔
’بات یہ ہوئی تھی کہ واقعے کے چند ہفتے بعد امریکی صدر باراک اوبامہ نے پاکستانی حکومت کو پیش کش کی تھی کہ وہ واقعے پر معافی مانگنے کو تیار ہیں تاہم اس وقت کی حکومتی جماعت کے سربراہ اور صدر آصف زرداری نے امریکی صدر سے کہا تھا کہ وہ ابھی معافی نہ مانگیں اور پاکستانی پارلیمنٹ سے واقعے کے حوالے سے مشترکہ قرارداد کی منظوری کا انتظار کر لیں۔ تاہم بعد میں صدر اوبامہ کو ایک دوسرے ملک سے معافی مانگنی پڑ گئی جس کے بعد ان کے مشیروں نے انہیں پاکستان سے معافی مانگنے سے روک دیا۔‘
یاد رہے کہ سلالہ واقعے کے تین ماہ بعد فروری 2012 میں صدر اوبامہ نے بگرام ایئر بیس پر قرآن مجید کے نسخوں کے جلائے جانے کے واقعے پر افغان صدر سے معافی مانگی تھی جس کے بعد پاکستان سے معافی مانگنے کا معاملہ سرد پڑ گیا تھا۔
جنرل آصف کے مطابق بعد میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ’ایک ماٹھا سا‘ معذرت خواہانہ بیان جاری کیا تھا جس کے بعد 3 جولائی 2012 کو پاکستان نے نیٹو کی سپلائی لائن بحال کر دی تھی۔
تاہم سابق سیکرٹری دفاع کے مطابق سلالہ واقعے کے دور رس اثرات مرتب ہوئے اور پھر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو نئے سرے سے تشکیل دیا گیا۔
سلالہ حملہ پاک امریکہ تعلقات کا پیش خیمہ؟
صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق سلالہ واقعہ اس لحاظ سے غیر معمولی تھا کہ اس کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ازسرنو تشکیل ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تعلقات بگاڑنے والا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان میں گرفتاری اور رہائی اور اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی نیوی سیلز کا ایبٹ آباد آپریشن ہو چکے تھے اور ان واقعات پر پاکستان سے معافی نہیں مانگی گئی تھی۔
اب سلالہ واقعہ باہمی تعلقات پر بری طرح اثر انداز ہوا اور پاکستان کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ امریکہ اس پر معافی مانگے۔ بالآخر ہیلری کلنٹن کی طرف سے سوری کہنے کے بعد معاملات بحال ہوئے۔ تاہم اس موقع پر تعلقات کی از سر نو تشکیل کی گئی اور مستقبل میں تعلقات کے نئے ضوابط طے کیے گئے اور یوں ٹرانزیکشنل تعلقات کا دور شروع ہوا۔
پارلیمنٹ پھر نظر انداز؟
سلالہ واقعے کے بعد شاید کافی عرصے بعد پہلی بار پاکستان کی پارلیمنٹ کو موقع ملا تھا کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرے۔ عوامی غیظ و غضب کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے امریکہ کے ساتھ افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے تمام زبانی و تحریری معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد اپریل 2012 میں پارلیمنٹ نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے 12 نکاتی مشترکہ تجاویز پیش کیں۔
ان تجاویز میں کہا گیا کہ نیٹو کی سپلائی لائن پاکستان میں ڈرون اور دیگر امریکی حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ سپلائی روٹ کو اسلحے کی ترسیل کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تمام زبانی معاہدے ختم تصور کیے جائیں گے۔ امریکہ سلالہ واقعے پر معافی مانگے گا اور واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کے اندر خفیہ آپریشن نہیں کیے جائیں گے اور پاکستان میں کوئی امریکی اڈے نہیں رکھے جائیں گے۔
تاہم جب تین جولائی کو نیٹو سپلائی بحال کی گئی تو پارلیمنٹ کی کئی تجاویز کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ امریکہ کی طرف سے کوئی باضابطہ معافی نہیں مانگی گئی بلکہ صرف فون پر امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر کو سوری بول دیا جسے کافی سمجھا گیا۔