انگریزی زبان میں Theater of the Absurd یعنی ’لغویات کا ناٹک‘ یا مضحکہ خیز تماشے کی اصطلاح عام ہے۔ کبھی کبھی تو گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ اصطلاح ہماری ریاست کے کرداروں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔
اس کھیل کے سب کردار ایک ایسے وقت میں اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں جب کھیل دیکھنے والوں کو خود زندگی اور موت کا مسئلہ لاحق ہے۔ یہ مسئلہ ہے کورونا کی وبا کا اور کردار ہیں ہماری سیاسی جماعتیں۔
سب سے پہلے پیپلز پارٹی کو لے لیجیے۔ سخت لفظ سہی مگر پی پی پی کے طرز عمل کو منافقت کےعلاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ منافقت ذاتی بھی ہے اور سیاسی بھی۔
مزید پڑھیں
-
تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے
Node ID: 520866
-
’میری اپنی سٹریٹیجی ہوتی ہے لوگ اسے یوٹرن کہتے ہیں‘
Node ID: 521261
-
مشکل وقت میں قیادت سنبھالنے والی پاکستان کی سیاسی خواتین
Node ID: 521281
ذاتی طور پر پی پی پی قیادت کی گھریلو تقریبات میں محدود شرکت اور شدید احتیاط جب کہ سیاسی جلسوں میں عوام کی بھرپور آمد اسی تضاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سیاسی طور پر پی پی پی اپنی صوبائی حکومت میں لاک ڈاؤن اور اجتماعات پر پابندی کی سب سے بڑی علمبردار کے طور پر سامنے آئی۔ اب البتہ وہ سارے اصول سیاسی مفادات کے لیے ہوا ہوئے۔ اس کو منافقت کے علاوہ کیا کہا جائے؟
ن لیگ کی سیاست البتہ واضح ہے جس کا فی الحال فیصلہ مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں اس لیے ان کا طرز عمل اور اپروچ جارحیت اور غصے پر مبنی ہے۔ مگر اسی جارحیت کا اظہار ہو رہا ہے غفلت، لا پرواہی اور بے حسی میں۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36511/2020/pakistans-opposition-parties-hold-massive-rally-against-pm-imran-khan.jpg)
ایک عرصے تک نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد مریم نواز نے سیایست سے بریک لیے رکھی تھی۔ اس وقت نہ سلیکٹڈ نہ سلیکٹرز کا خیال آیا مگر اب وہ مصِر ہیں کہ عوام تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھیں اور سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں اکھٹے ہو جائیں اور ووٹ کو عزت دے کر ہی واپس جائیں۔ اس دوران کورونا کی جو صورتحال ہو گی اس کی پرواہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔
خبروں میں ان رہنے کے لیے وہ اپنے بزرگوں کی وفات کی خبر وقت پر نہ ملنے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتی ہیں اور کبھی جیل اور چوہوں کی بچی ہوئی خوراک کا تذکرہ کرتی ہیں۔ نواز شریف کی عدم واپسی کے ایسے بودے جواز پر حکومت کو کھل کر شاٹس کھیلنے کا موقع بھی خوب ملتا ہے مگر مریم بی بی ہرحالت میں تصادم اور تنازع کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ لوگوں کو اس ماحول میں اکٹھا کرنے اور کورونا کے پھیلاؤ میں ن لیگ کی مجرمانہ غفلت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
بات اگر حالات خراب کرنے کی ہو اور حکومت کی نااہلی، نادانی اور ناتجربہ کاری کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ کوئٹہ، پشاور اور سوات میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر وہاں جلسے بزور طاقت نہیں روکے گئے۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36516/2020/pdm-jalsa_khi.jpg)
پنجاب میں البتہ بزدار سرکار کی امیچورٹی عیاں ہے۔ گوجرانوالہ میں ہلکی پھلکی رکاوٹیں لگائی گئیں مگر ملتان میں بھرپور طاقت کا استعمال جاری ہے۔ واضح طور پر یہ 13 دسمبر کو لاہور جلسے کو روکنے کا ٹریلر ہے۔ اگر ملتان جلسے کو کھل کر ہونے دیا جاتا تو لاہور میں رکاوٹ کا جواز نہ رہتا۔
اب حکومت نے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے کہ پنجاب میں پی ڈی ایم یا ن لیگ کے جلسے نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ اس کا بظاہر نتیجہ تصادم ہے۔ ملتان میں اس تصادم کا لیول کم ہے مگر اگر لاہورمیں ن لیگ کی عاقبت نااندیشی کا مقابلہ حکومت کی نااہلی سے ہوا تو اس کا انجام خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ماحول میں ٹھراؤ، سنجیدگی اور میچیورٹی کا مظاہرہ کرے۔ اپوزیشن کی منافقت اور بے حسی کا جواب اگر طاقت سے دیا گیا تو حالات کی خرابی کا ذمہ بھی حکومت کے سر ہوگا۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36516/2020/492409_30352162.jpg)